بام و در و دریچہ و دہلیز و دار عشق
ہر چیز پہ ہے سایہ فگن بے مہار عشق
کاسہ ، کڑا ، کلائی ، کرامت ، کشادگی
اک اک سے ہو رہا ہے عیاں بار بار عشق
کاغذ ، قلم ، حروف ، قرینے ، بیانیے
اظہار میں یوں لاتا ہے کیسا نکھار عشق
کھلتی نہیں کسی پہ بھی اس کی حقیقتیں
گاہے طرب شناس گہے غم گسارعشق
اک میں ہی اس کی آنچ میں تنہا نہیں جلا
کرتا ہے کائنات کا سینہ فگار عشق
دنیا کے واسطے ہے فقط بے ہنر سی شے
اور اہلِ درد کے لیے صدیوں کا بار عشق
رکھتا ہے ایک سمت لہو کو نچوڑ کر
اور اک طرف خزاں میں بھی لائے بہار عشق
ہے عشق آستاں پہ دھرا موتیے کا پھول
اور راہِ اعتبار میں اڑتا غبار عشق
عشق اس کے انتظار میں جلتی دیے کی لو
آنکھوں سے جھانکتا ہوا ساراخمار عشق