وہ مثل آئینہ دیوار پر رکھا ہوا تھا
جو اک انعام میری ہار پر رکھا ہوا تھا
میں بائیں ہاتھ سے دشمن کے حملے روکتا تھا
کہ دایاں ہاتھ تو دستار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو ایک صحرا آشنا تھا قافلے میں
وہ جس نے آبلے کو خار پر رکھا ہوا تھا
وصال و ہجر کے پھل دوسروں کو اس نے بخشے
مجھے تو رونے کی بیگار پر رکھا ہوا تھا
مسلم تھی سخاوت جس کی دنیا بھر میں اس نے
مجھے تنخواہ بے دینار پر رکھا ہوا تھا
خط تقدیر کے سفاک و افسردہ سرے پر
مرا آنسو بھی دست یار پر رکھا ہوا تھا
فلک نے اس کو پالا تھا بڑے ناز و نعم سے
ستارہ جو ترے رخسار پر رکھا ہوا تھا
وہی تو زندہ بچ کے آئے ہیں تیری گلی سے
جنہوں نے سر تری تلوار پر رکھا ہوا تھا
وہ صبح و شام مٹی کے قصیدے بھی سناتا
اور اس نے ہاتھ بھی غدار پر رکھا ہوا تھا
ترے رستے میں میری دونوں آنکھیں تھیں فروزاں
دیا تو بس ترے اصرار پر رکھا ہوا تھا
جمال احسانی
Leave a Comment