پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دِل سا دُکھایا تو باپ رونے لگا
یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا
جو اَمّی نہ رہیں تو کیا ہُوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا
نہ جانے کب سے وُہ نمبر ملا رَہا تھا مرا
کہ جونہی فون اُٹھایا تو باپ رونے لگا
ہزار بار اُسے روکا تھا میں نے سگریٹ سے
جو آج چھین بجھایا تو باپ رونے لگا
بٹھا کے رِکشے میں ، کل شب رَوانہ کرتے ہُوئے
دِیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا
ہمیں بنا دِیئے کمرے خود اُس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا
کل اُس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اُسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا
بہن رَوانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا
کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جونہی اُٹھایا تو باپ رونے لگا
اَذان بیٹے کے کانوں میں دے رہا تھا میں
اَذان دیتے جو پایا تو باپ رونے لگا
طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا
لَحَد پہ اَبّو کی کل رات ایک مدت بعد
چراغ جونہی جلایا تو باپ رونے لگا
نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جونہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا
شہزادقیس
Leave a Comment