Skip to content

Month: June 2020

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا

عشق میں صبر کارگر نہ ہوا
آہ کی ، آہ میں اثر نہ ہُوا

نخلِ اُمّید باروٙر نہ ہوا
جو نہ ہونا تھا، عمر بھر نہ ہُوا

اِتنا آساں نہیں کسی پہ کرم
آپ شرمائیں گے، اگر نہ ہُوا

ہم ہوئے لاکھ سب سے بیگانے
وہ نہ اپنا ہوا، مگر نہ ہُوا

جس طرف انتظار میں ہم تھے
اُس طرف آپ کا گزر نہ ہُوا

غیر گھر کر گیا تیرے دل میں
اک میرا تیرے دل میں گھر نہ ہُوا

ہم وفا کر کے بےوفا ٹھہرے
کوئی الزام تیرے سٙر نہ ہُوا

میرے حالات سے نصیرؔ اب تک
باخبر، حُسنِ بے خبر نہ ہُوا

پِیر نصیر الدّین نصیرؔ

Leave a Comment

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے

پانچ دس پیسے، چار آنے تھے
وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے

جیب میں ہوں گے ایک دن سو بھی
اُن دنوں خواب یہ سہانے تھے

آمدن کے لئے قلم کاپی
کارگر ، مستند بہانے تھے

یار، بوتل، کباب اور قلفی
کبھی قارون کے خزانے تھے

عید کا انتظار رہتا تھا
سکے جیبوں میں کھنکھنانے تھے

کتنی سستی تھیں وہ سبھی خوشیاں
کیا حسیں وقت وہ پرانے تھے

آج پیسہ ہے عقل اور دانش
کل تلک لوگ ہی سیانے تھے

کل میسر تھے مفت جو منظر
اب وہ لاکھوں میں بھی نہ آنے تھے

ہم نے بچپن کو ساتھ یوں رکھا
عمرِ دوراں کے غم بھلانے تھے

خوب پچھلی صدی تھی وہ ابرک
جو تعلق تھے سولہ آنے تھے

اتباف ابرک

Leave a Comment

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں

کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں

لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک سی تقدیریں ہیں

کوئی افواہ گلا کاٹ نہ ڈالے اپنا
یہ زبانیں ہیں کہ چلتی ہوئی شمشیریں ہیں

اب کے عشاق کی یہ زندہ دلی بھی دیکھو
ہجر کے دن ہیں مگر وصل کی تدبیریں ہیں

ہم جو ناخواندہ نہیں ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی ہوئی تحریریں ہیں

ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم پاؤں میں زنجیریں ہیں

قتیل شفائی

Leave a Comment

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے

وہ لڑکی دُکھوں کی ماری ہو سکتی ہے
ورنہ وہ تو اور بھی پیاری ہو سکتی ہے

تیرے جانے پر میں جی تو سکتا ہوں
پر جینے میں دشواری ہو سکتی ہے

گھر کی باتیں باہر لے جا سکتے ہیں
گھر کے اندر دنیا داری ہو سکتی ہے

دیکھ ! دوپٹہ لے کر گھر سے نکلا کر
دیکھ ! ہوس تو سب پہ طاری ہو سکتی ہے

ایک شکل پہ کتنے چہرے ہو سکتے ہیں
ایک محبت کتنی باری ہو سکتی ہے

ان آنکھوں میں تھوڑا کاجل ڈالا کر
اِن میں تھوڑی اور خماری ہو سکتی ہے

ہجر مجھے بھی موت عطا کر سکتا ہے
اُس کو بھی تو یہ بیماری ہو سکتی ہے

Leave a Comment

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز

حُسن ، مرھُون جوش بادۂ ناز
عشق ، منت کشِ فسُون نیاز

دل کا ھر تار ، لرزشِ پیہم
جاں کا ھر رشتہ ، وقفِ سوز و گداز

سوزش دردِ دِل ، کسے معلوم
کون جانے ، کسی کے عشق کا راز

میری خاموشیوں میں ، لرزاں ھے
میرے نالوں کی ، گم شدہ آواز

ھو چکا عشق ، اب ھوس ھی سہی
کیا کریں ، فرض ھے ادائے نماز

تُو ھے ، اور اِک تغافل پیہم
میں ھُوں ، اور انتظار بے انداز

خوفِ ناکامئ اُمید ھے ، فیضؔ
ورنہ ، دِل توڑ دے طلسم مجاز

“فیض احمّد فیض”

Leave a Comment

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی

رستہ بھی کٹھن دھوپ میں شدت بھی بہت تھی
سائے سے مگر اس کو محبت بھی بہت تھی

خیمے نہ کوئی میرے مسافر کے جلائے
زخمی تھا بہت پاؤں مسافت بھی بہت تھی

سب دوست مرے منتظر پردۂ شب تھے
دن میں تو سفر کرنے میں دقت بھی بہت تھی

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی

پھولوں کا بکھرنا تو مقدر ہی تھا لیکن
کچھ اس میں ہواؤں کی سیاست بھی بہت تھی

وہ بھی سر مقتل ہے کہ سچ جس کا تھا شاہد
اور واقف احوال عدالت بھی بہت تھی

اس ترک رفاقت پہ پریشاں تو ہوں لیکن
اب تک کے ترے ساتھ پہ حیرت بھی بہت تھی

خوش آئے تجھے شہر منافق کی امیری
ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت بھی بہت تھی

Leave a Comment

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا

آنے والی تھی خزاں میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے
دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

دشمنوں نے شست باندھی خیمۂ امید پر
دوستوں نے درۂ امکان خالی کر دیا

بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا

لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کر دیا

ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

اعتبارساجد

Leave a Comment

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟

وہ کہتی ہے، ستارے آنسوؤں میں کیوں چمکتے ہیں؟
میں کہتا ہوں، محبت روشنی میں رنگ بھرتی ہے

وہ کہتی ہے، ہوا کے ہاتھ میں کیا کیا نہیں آتا؟
میں کہتا ہوں، جو دہلیزوں کے اندر دفن ہوتا ہے

وہ کہتی ہے، زمانے کو دلوں سے رنج کیوں کر ہے؟
میں کہتا ہوں، کہ یہ آزار تو صدیوں کی قسمت ہے

وہ کہتی ہے، تمہارے بعد کیوں بارش نہیں ہوتی
میں کہتا ہوں، مری جاں ہجر صحراؤں میں رہتا ہے

وہ کہتی ہے، کہ خوشیوں میں بھی تم تو رونے لگتے ہو
میں کہتا ہوں، مری آنکھوں کو ساون اچھا لگتا ہے

وہ بولی، تم بھی فرحت زندگی سے روٹھ جاؤ گے
میں بولا، ہاں، یا شاید موت مجھ سے مان جائے گی

وہ بولی، تم خوشی کے گیت کو مایوس کرتے ہو
میں بولا، کیا کروں ان مختصر گیتوں کے موسم کا

وہ بولی، تم تو فرحت خود ہی خود سے ہار جاتے ہو
میں بولا، کیا کروں کمزور ہوں اور بے سہارا ہوں

وہ بولی، کیا یہ سب کچھ اتفاقاً ہے تمہارا غم
میں بولا، یہ بھی ممکن ہے یہ سب کچھ احتراماً ہو

محبت میں غموں کی اس قدر یلغار کیوں،۔۔۔بولی
میں بولا، تم کسی دن یہ تو اپنے آپ سے پوچھو

وہ کہتی ہے، سُنو فرحت! تمہارا خواب کیوں ٹوٹا؟
میں کہتا ہوں، سرابی! دل میں کوئی کھینچ پڑتی تھی

تمہاری شاعری میں زندگی کی سسکیاں کیوں ہیں؟
میں بولا، آنسوؤں کی ابتدائی شکل جو ٹھہری

وہ کہتی ہے، کہ فرحت شاہ! میں کچھ مضطرب سی ہوں
میں کہتا ہوں، سرابی! تم بھی میری روح جیسی ہو

وہ کہتی ہے، تمہیں کیوں خوف آتا ہے ہواؤں سے
میں کہتا ہوں، سرابی! دیپ تو ایسے ہی ہوتے ہیں

وہ کہتی ہے، چلو فرحت!ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دیتا ہوں بجھنے کو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، تم کہاں غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گم ہوں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات کی بے چینیاں کیا ہیں؟
میں کہتا ہوں، وہی جو دوریوں کے دل میں ہوتی ہیں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، خوف کا دورانیہ کیا ہے؟
میں کہتا ہوں، جو دل اور غم کا ہوتا ہے مصیبت میں

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، بادلوں کی عمر کتنی ہے؟
میں کہتا ہوں، تمازت کے مطابق پانیوں کے وقت جتنی ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، رات اتنی بے زباں کیوں ہے؟
میں کہتا ہوں، زباں تو درد کی شدت کی ہوتی ہے

وہ کہتی ہے، یہ خاموشی بھی کچھ تو سوچتی ہو گی
میں کہتا ہوں، وہی جو گفتگو کی بھیڑ میں کھو جائے

وہ کہتی ہے کہ فرحت، کچھ دنوں سے بولتے کم ہو
میں کہتا ہوں، کئی دُکھ بولنے سے روک دیتے ہیں

وہ کہتی ہے، مجھے یہ سوچ کر بتلا میں کیسی ہوں
میں کہتا ہوں سرابی! سوچنے میں وقت لگتا ہے

وہ کہتی ہے، ہجومِ بد روِش سے خوف آتا ہے
میں کہتا ہوں، مجھے اُجڑی ہوئی گلیاں ڈراتی ہیں

وہ کہتی ہے مجھے بے حس زمانے سے شکایت ہے
میں کہتا ہوں کہ یہ شکوہ شکایت رائیگاں ہے سب

وہ بولی ، تم کہاں غائب ہوئے رہتے ہو راتوں کو
میں بولا، میں تو بس آوارہ پھرتا ہوں اداسی میں

وہ بولی، فون بھی اکثر بہت انگیج رکھتے ہو
میں بولا، بے سروپا گھنٹیوں سے خوف آتا ہے

وہ بولی، تم بہت کنجوس ہو خط بھی نہیں لکھتے
میں بولا، خط لکھوں تو شاعری ناراض ہوتی ہے

وہ بولی، تم کبھی ملنے چلے آؤ جو ممکن ہو
میں بولا، یہ تو تم نے میرے دل کی بات ہی کہہ دی

وہ بولی، آج موسم میں عجب سی خوشگواری ہے
میں بولا، ہاں یہ موسم پیار سے ملنے کا موسم ہے

وہ کہتی ہے کہ اب آوارگی سے کچھ نہیں حاصل
مجھے حیرت ہے یہ سب کچھ وہ مجھ بادل سے کہتی ہے

وہ کہتی ہے کہ فرحت! بے ضرر رہنا نہیں اچھا
میں کہتا ہوں، کئی اچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں

وہ کہتی ہے مری یادوں سے کیونکر دور رہتے ہو
میں کہتا ہوں، تری پرچھائیاں بس میں نہیں ہوتیں

وہ کہتی ہے، تمہاری کچھ دعا بھی تو کوئی ہو گی
میں کہتا ہوں، جہاں تم ہو، یہ راتیں بھی وہیں ہوتیں

عجب سے معنویت سی پلٹ آتی نظاروں میں
تمہیں ہم دیکھتے بھی اور باتیں بھی وہیں ہوتیں

ستارے دیکھنے آتے مجھے تیری محبت میں
وہ کہتی ہے، ستارے اور سپنے جھوٹ ہوتے ہیں

وہ کہتی ہے کہ اب روؤں تو آنسو چبھنے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں، کسی شاعر سے آنکھیں مانگ سکتی ہو

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، مضطرب سے لگ رہے ہوکچھ
میں کہتا ہوں کہ دل میں عشق کا مہمان دیکھا ہے

وہ مجھ سے پوچھتی ہے، کیا پریشانی ہے فرحت جی
میں کہتا ہوں ، کہ سارے شہر کو ویران دیکھا ہے

Leave a Comment

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے

جا کر بھی مری آنکھ سے اوجھل تو نہیں ہے
تو بھی مری مشکل ہے مرا حل تو نہیں ہے

منزل ہو، اجالے ہوں، بہاریں ہوں کہ ہو تم
یاں کوئی کسی کا بھی مسلسل تو نہیں ہے

خود تیری نظر سے بھی تجھے دیکھا ہے دنیا
تصویر کا وہ رخ بھی مکمل تو نہیں ہے

کرتا ہوں رفو روز گریبان میں اپنا
ہر شخص ترے شہر کا پاگل تو نہیں ہے

ہر روز جھڑی لگتی ہے موسم ہو کوئی بھی
ساون کا مری آنکھ یہ بادل تو نہیں ہے

دل محفلِ یاراں میں بھی دھڑکے نہ مرا اب
اس جا بھی وہی دھڑکا یہ مقتل تو نہیں ہے

اک عمر دلاسہ تھا کہ آنی ہے کوئی کل
آئی ہے تو خدشہ ہے یہ وہ کل تو نہیں ہے

بستی نے مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ ڈر ہے
اب پھر سے ٹھکانہ مرا جنگل تو نہیں ہے

جاتے ہیں جہاں سے تو سکوں اتنا ہے ابرک
بن میرے کوئی سانس معطل تو نہیں ہے

اتباف ابرک

Leave a Comment

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

پروین شاکر

Leave a Comment
%d bloggers like this: