ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرفِ تمنّا ترے قدموں کی صدا ہے
ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرفِ تمنّا ترے قدموں کی صدا ہے
ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے
ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے
میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے
میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے
کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے
قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے
شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے
جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے
شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا
لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے
ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے
درد کے مارے لوگوں کا بس اک پیغام ، محبت ہے
یہ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو، من مندر کی دیوی کون؟
میرے اچھے لوگو سن لو،اُس کا نام محبت ہے!
شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے
بِن بولے اک دل سے دوجے دل تک بات پہنچتی ہے
جو ایسے روحوں پر اُترے، وہ الہام محبت ہے
پگلے! دامن بندھ جاتی ہے، جس کے بخت میں لکھی ہو
تم کتنا بھاگو گے، آگے ہر ہر گام محبت ہے
اب تو بس اک یاد سہارے وقت گزرتا رہتا ہے
اور اُس یاد میں ہراک صبح، ہر اک شام محبت ہے
ہم جیسے پاگل دیوانے، سود خسارہ کیا جانیں
نفرت کے اس شہر میں اپنا ایک ہی کام محبت ہے
اک لڑکی آدھے رستے میں ہار گئی اپنا جیون
وہ شاید یہ مان چکی تھی، بدفرجام محبت ہے
کچھ آلودہ روحوں والے، ہوس پجاری ہوتے ہیں
زین انہی لوگوں کے باعث ہی بدنام محبت ہے
تُو پگلی! اب کن سوچوں میں گم صم بیٹھی رہتی ہے
بولا ہے ناں اب یہ ساری تیرے نام محبت ہے
اُف… کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
آہ بھر کر وہیں بیٹھ گیا دردِ جگر بھی
ہوتی ہی نہیں کم شبِ فرقت کی سیاہی
رخصت ہوئی کیا شام کے ہمراہ سحر بھی؟
ہم مجرمِ الفت ہیں، تو وہ مجرمِ دیدار
دل لے کے چلے ہو تو لیے جاؤ نظر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
مایوس شبِ ہجر نہ ہو اے دلِ بے تاب
اللہ دکھائے گا تو دیکھیں گے سحر بھی
جلووں کو ترے دیکھ کے جی چاہ رہا ہے
آنکھوں میں اتر آئے مرا کیفِ نظر بھی
واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی
ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی
جگر مراد آبادی
Leave a Comment“میرے ھمدم ، میرے دوست”
گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، میرے ھمدم ، میرے دوست
گر مجھے اِس کا یقیں ھو ، کہ تیرے دل کی تھکن
تیری آنکھوں کی اداسی ، تیرے سینے کی جلن
میری دلجوئی ، میرے پیار سے مِٹ جائے گی
گر میرا حرفِ تسلی وہ دوا ھو جس سے
جی اُٹھے پھر ، تیرا اُجڑا ھُوا بے نُور دِماغ
تیری پیشانی سے دُھل جائیں یہ تذلیل کے داغ
تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے
گر مجھے اِس کا یقیں ھو میرے ھمدم ، میرے دوست
روز و شب ، شام و سحر ، میں تجھےبہلاتا رھُوں
میں تجھے گیت سُناتا رھُوں ھلکے ، شیریں
آبشاروں کے ، بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت
آمدِ صُبح کے ، مہتاب کے ، سیاروں کے گیت
تجھ سے میں ، حُسن و محبت کی حکایات کہوں
کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جِسم
گرم ھاتھوں کی حرارت سے پگھل جاتے ھیں
کیسے ایک چہرے کے ٹھہرے ھُوئے مانُوس نقُوش
دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں
کس طرح عارضِ محبُوب کا شفاف بلور
یک بیک بادۂ احمّر سے دَھک جاتا ھے
کیسے گُلچیں کے لیے ، جُھکتی ھے خود شاخِ گلاب
کس طرح رات کا اِیوان مَہک جاتا ھے
یونہی گاتا رھُوں ، گاتا رھُوں تیری خاطر
گیت بُنتا رھُوں ، بیٹھا رھُوں تیری خاطر
یہ میرے گیت ، تیرے دُکھ کا مداوا ھی نہیں
نغمۂ جراح نہیں ، مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرھمِ آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں ، نشتر کے سِوا
اور یہ سَفاک مسیحا ، میرے قبضے میں نہیں
اِس جہاں کے کسی ذِی رُوح کے قبضے میں نہیں
ھاں مگر تیرے سِوا ، تیرے سِوا ، تیرے سِوا
“فیض احمّد فیضؔ”
Leave a Commentشب کا یہ حال ھے ، کہ تِیری یاد کے سِوا
دِل کو کِسی خیال سے ، راحَت نہیں ھُوتی
”حسرتؔ موھانی“
Leave a Commentشرحِ فراق ، مدحِ لبِِ مُشکبُو کریں
غربت کدے میں ، کس سے تیری گفتگو کریں؟؟
یار آشنا نہیں کوئی ، ٹکرائیں کس سے جام ؟؟
کس دلرُبا کے نام پہ , خالی سَبُُو کریں؟؟
“فیض احمّد فیض”
Leave a Commentیُوں جمالِ روئے جاناں شمعِ خلوت خانہ تھا
دل ہمارا غرقِ آتش صورتِ پروانہ تھا
اک جمالِ بے تکیُف جلوہء جانانہ تھا
آنکھ جس جانب اٹھی ، ہر ذرّہ حیرت خانہ تھا
سوز سے خالی جگر تھا،غم سے دل بیگانہ تھا
عشق میں ہم نے وہ دیکھا جو کبھی دیکھا نہ تھا
جب حقیقت سے اٹھا پردہ تو یہ عُقدہ کُھلا
خواب تھا، وہمِ دوئی زخمِ خودی ،افسانہ تھا
وصل میں گنجائشِ اغیار اِتنی بھی نہ تھی
چشم و گوش و ہوش ہر اپنا وہاں بیگانہ تھا
لے کے ہم سے دین و دل ،عقل و خِرد بولا کوئی
یہ تو راہ و رسمِ اُلفت کا فقط بیعانا تھا
خانہء لیلیٰ میں تھے جنّت کے اسبابِ نِشاط
قیس کے حصّے میں تاحدِ نظر ویرانہ تھا
زندگی کے ہمسفر تھے نزع میں بھی دل کے پاس
بے کسی تھی ، یاس تھی ،ارمان تھے ، کیا کیا نہ تھا
وہ بھی کیا دن تھے کہ پیرِ میکدہ کے عِشق میں
یہ جبینِ شوق تھی، سنگِ درِ میخانہ تھا
فیصلہ دیتے ہوئے وہ بڑھ گئے حد سے نصؔیر
میں سزاوارِ سزا تو تھا ، مگر اتنا نہ تھا
پیر سید نصیر الدین نصیر
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کر
برنگ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقی
سو اس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
مری اب آنکھیں نہیں کھلتیں ضعف سے ہمدم
نہ کہہ کہ نیند میں ہے تو یہ کیا خیال کیا
بہار رفتہ پھر آئی ترے تماشے کو
چمن کو یمن قدم نے ترے نہال کیا
جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلف
کسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
میرتقی میر
Leave a Commentخوبصورتی کی حد ہے نہ حساب ہے
تُو گلاب ، تُو گلاب ، تُو گلاب ہے
چار سو کروڑ تتلیوں میں تُو مرا
اِنتخاب ، اِنتخاب ، اِنتخاب ہے
چودہویں کا چاند ، نصفِ دِن کا آفتاب
چندے آفتاب ، چندے ماہتاب ہے
خوشبو ، خوش بدن کی جگنو مست کر گئی
کہہ رہے ہیں یہ گلاب ، لاجواب ہے
ایک پل کو دیکھ لے ہمیں بھی پیار سے
یہ ثواب دَر ثواب دَر ثواب ہے
خواب میں بھی اُن کے آگے ایک نہ چلی
بولے جاگ جاؤ یہ ہمارا خواب ہے
دُھوپ میں جو مینہ برس پڑے تو جانئے
اَبر زُلفِ یار دیکھ آب آب ہے
عشق نے جہاں پہ لکھ دِیا تمام شد
حُسن کی کتاب کا وُہ پہلا باب ہے
حُسن کی نگاہ میں حیا کے سرخ پھول
آج کل کے دور میں یہ اِنقلاب ہے
قیس اُن نگاہوں میں چمک سی پیار کی
اِک نئی کتاب کا یہ اِنتساب ہے
شہزاد قیس
Leave a Comment