سونے کا ڈھیر بیچ کے مٹی خرید لی
بھوکی نے جسم بیچ کے روٹی خرید لی
میں کہتا ہی رہا مِرے بیٹے زمیں نہ بیچ
پاگل نے ماں کو بیچ کے گاڑی خرید لی
اب گاوں آنے جانے کے بھی سلسلے گئے
بھائی نے شہر میں نئی کوٹھی خرید لی
ہاری نے سارا سُود ہی یٙک مُشت دے دیا
مالک نے کچھ ہزار میں لڑکی خرید لی
میں جیب خرچ کے لئے دیتا رہا مگر
بیٹی نے پیسے جوڑ کے چُنی خرید لی
میلے میں جیب کٹ گئی لیکن یہ شکر ہے
بابا کے واسطے نئی پگڑی خرید لی
اب اِس بڑھاپے میں بھلا کیا وقت دیکھنا
میں نے گھڑی کو بیچ کر جوتی خرید لی
مُتشاعرہ پہ کس لئے ہیں اُنگلیاں اُٹھی
شاعر نے اپنی شاعری بیچی، خرید لی
بیٹی نے پہلی عید پر مانگی تھی مان سے
بوڑھے نے خُون بیچ کر مہندی خرید لی
میثم علی آغا
Leave a Comment