تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ
نادیدہ اک عدو کی ہے یلغار، گھر میں رہ
شامل ہے بزدلوں میں تو باہر نکل کے بھاگ
دشمن سے گر ہے بر سرِ پیکار، گھر میں رہ
رہ کر بھی ساتھ ساتھ کبھی ہاتھ مت ملا
کر رسم و راہ سے سبھی انکار، گھر میں رہ
کہہ دے کہ گھر میں بیٹھنے والے ہیں ہم سبھی
دشمن کے آگے ڈال دے ہتھیار، گھر میں رہ
گھر میں ہی رہ کے لڑنا ہے اب کے عدو سے جنگ
اُس پر چلے گا تیر نہ تلوار، گھر میں رہ
دھو ہاتھ بار بار، نہ دھو زندگی سے ہاتھ
سانسوں سے تیری گھر میں ہے مہکار، گھر میں رہ
تسکین کتنے چہروں پہ ہے تجھ سے، یاد رکھ
باہر ہے گرم خوف کا بازار، گھر میں رہ
ٹوٹا ہوا بھی دل ہو تو مت رنج کر کوئی
گر اپنے آپ سے ہے تجھے پیار، گھر میں رہ
سیلاب ہے بلا کا، دریچے سے جھانک، دیکھ
خستہ سفینہ، ٹوٹی ہے پتوار، گھر میں رہ
چارہ گروں کا بھی ہے یہی سب سے التماس
حالات و وقت کا بھی ہے اصرار گھر میں رہ
تنہا سکوں سے بیٹھ کے خالق سے لو لگا
خود کو بنا لے رحم کا حق دار، گھر میں رہ
بے شک اگر ہے جان تو راغبؔ جہان ہے
دیوار و در ہیں تجھ سے ہی ضوبار، گھر میں رہ