Skip to content

Month: May 2020

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ

تھم سی گئی ہے وقت کی رفتار، گھر میں رہ
نادیدہ اک عدو کی ہے یلغار، گھر میں رہ

شامل ہے بزدلوں میں تو باہر نکل کے بھاگ
دشمن سے گر ہے بر سرِ پیکار، گھر میں رہ

رہ کر بھی ساتھ ساتھ کبھی ہاتھ مت ملا
کر رسم و راہ سے سبھی انکار، گھر میں رہ

کہہ دے کہ گھر میں بیٹھنے والے ہیں ہم سبھی
دشمن کے آگے ڈال دے ہتھیار، گھر میں رہ

گھر میں ہی رہ کے لڑنا ہے اب کے عدو سے جنگ
اُس پر چلے گا تیر نہ تلوار، گھر میں رہ

دھو ہاتھ بار بار، نہ دھو زندگی سے ہاتھ
سانسوں سے تیری گھر میں ہے مہکار، گھر میں رہ

تسکین کتنے چہروں پہ ہے تجھ سے، یاد رکھ
باہر ہے گرم خوف کا بازار، گھر میں رہ

ٹوٹا ہوا بھی دل ہو تو مت رنج کر کوئی
گر اپنے آپ سے ہے تجھے پیار، گھر میں رہ

سیلاب ہے بلا کا، دریچے سے جھانک، دیکھ
خستہ سفینہ، ٹوٹی ہے پتوار، گھر میں رہ

چارہ گروں کا بھی ہے یہی سب سے التماس
حالات و وقت کا بھی ہے اصرار گھر میں رہ

تنہا سکوں سے بیٹھ کے خالق سے لو لگا
خود کو بنا لے رحم کا حق دار، گھر میں رہ

بے شک اگر ہے جان تو راغبؔ جہان ہے
دیوار و در ہیں تجھ سے ہی ضوبار، گھر میں رہ

Leave a Comment

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات

خالقِ حرف و صدا ہے تیری ذات
مرکزِ حمد و ثنا ہے تیری ذات

ساری دنیا کا ہے پالن ہار تُو
محورِ ارض و سما ہے تیری ذات

تیرے ہی رحم و کرم کی آس ہے
مالکِ یومِ جزا ہے تیری ذات

ہاتھ پھیلائے کوئی کس کے حضور
رب ہے تُو حاجت روا ہے تیری ذات

تُو ہی واقف ہے دلوں کے حال سے
منبعِ نورِ ہدیٰ ہے تیری ذات

ہے اگر کچھ تو ہے بس تیری عطا
کچھ نہیں تو آسرا ہے تیری ذات

کار سازی تیری ہر ذرّے میں ہے
ہر جگہ جلوہ نما ہے تیری ذات

مشکلیں راغبؔ کی بھی آسان کر
اے خدا! مشکل کشا ہے تیری ذات

Leave a Comment

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِرگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاک

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پرسوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دل روشن، نفس گرم
محکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نم ناک

محکوم ہے بیگانہء اخلاص و مروت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجہ افلاک

Leave a Comment

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں

‏وہ شخص بھی شعر تھا کوئی سہلِ ممتنع میں
‏نہیں کھلا گر چہ اس کی کوئی پرت نہیں تھی

‏اک اور عشق آ گیا تھا دورانِ ہجر، ٹالا
‏ممانعت تو نہیں تھی، مجھ میں سکت نہیں تھی

‏عمیرنجمی

Leave a Comment

زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی

زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی
میں شعر کہتا تھا وہ داستان سناتی تھی

اسے پتہ تھا میں دنیا نہیں محبت ہوں
وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی

منافقوں کو میرا نام زہر لگتا تھا
وہ جان بوجھ کے غصہ انھیں دلاتی تھی

عرب لہو تھا رگوں میں, بدن سنہری تھا
وہ مسکراتی نہیں تھی دئیے جلاتی تھی

اسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا
یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی

یہ پھول دیکھ رہے ہو یہ اس کا لہجہ تھا
یہ جھیل دیکھ رہے ہو یہاں وہ آتی تھی

میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی علی
کہ اس کو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی

ہر ایک روپ انوکھا تھا اُس کی حیرت کا
مِرے لئے وہ زمانے بدل کے آتی تھی

میں اُس کے بعد کبھی ٹھیک سے نہیں جاگا
وہ مجھ کو خواب نہیں، نیند سے جگاتی تھی

“علی یہ لوگ تمہیں جانتے نہیں ہیں ابھی”
گلے لگا کے مِرا حوصلہ بڑھاتی تھی

” تم اُس سے دُور رہو” لوگ اُس سے کہتےتھے
” وہ میرا سچ ہے ” بہت چیخ کر بتاتی تھی

Leave a Comment

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت

ہے طرفہ تماشا سرِ بازارِ محبت
سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ محبت

اللہ کرے تو بھی ہو بیمارِ محبت
صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتارِ محبت

ابرو سے چلے تیغ تو مژگاں سے چلے تیر
تعزیز کے بھوکے ہیں خطا وارِ محبت

اس واسطے دیتے ہیں وہ ہر روز نیا داغ
اک درد کے خوگر نہ ہوا بیمارِ محبت

کچھ تذکرۃِ عشق رہے حضرتِ ناصح
کانوں کو مزہ دیتی ہے گفتارِ محبت

دل بھول نہ جائے کسی مژگاں کی کھٹک کو
کچھ چھیڑ رہے اے خلشِ خارِ محبت

جو چارہ گر آیا مری بالیں پہ یہ بولا
اللہ کو سونپا تجھے بیمارِ محبت

ثابت قدم ایسی رہِ اُلفت میں نہ ہوں گے
تھا ہم کو تہِ تیخ بھی اقرارِ محبت

دیکھا ہے زمانے کو ان آنکھوں نے تو اے داغؔ
اس رنگ پر اس ڈھنک پر انگارِ محبت​

داغؔ دہلوی​

Leave a Comment

ستم کامیاب نے مارا

ستم کامیاب نے مارا
کرم لا جواب نے مارا

خود ہوئی گم ہمیں بھی کھو بیٹھی
نگہ بازیاب نے مارا

زندگی تھی حجاب کے دم تک
برہمئ حجاب نے مارا

عشق کے ہر سکون آخر کو
حسن کے اضطراب نے مارا

خود نظر بن گئی حجاب نظر
ہائے اس بے حجاب نے مارا

میں ترا عکس ہوں کہ تو میرا
اس سوال و جواب نے مارا

کوئی پوچھے کہ رہ کے پہلو میں
تیر کیا اضطراب نے مارا

بچ رہا جو تری تجلی سے
اس کو تیرے حجاب نے مارا

اب نظر کو کہیں قرار نہیں
کاوش انتخاب نے مارا

سب کو مارا جگرؔ کے شعروں نے
اور جگرؔ کو شراب نے مارا

جگرمرادآبادیؔ

Leave a Comment

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے

دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے

تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے

سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے

آہ وہ یاد کہ اس یاد کو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے

کیا تأمل ہے مرے قتل میں اے بازو یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے

حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو کہ اسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے

تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے
داغ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے

کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسی کا دل مضطر نے دوا رکھا ہے

نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے

اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرتؔ
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے

حسرتؔ موہانی

Leave a Comment

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر

احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول سوز و تب و تاب آخر

میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

کیا دبدبۂ نادر کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر

خلوت کی گھڑی گزری جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر

تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر

علامہ اقبال

Leave a Comment

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار

رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ نزاکت وہ ابھار

زلفِ پیچاں میں وہ سج دھج کہ بلائیں بھی مرید
قدرِ رعنا میں وہ چم خم کہ قیامت بھی شہید

اکبر الہ آبادی

Leave a Comment
%d bloggers like this: