Skip to content

Month: April 2020

شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے

شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے
میں بھٹکتا ہوں میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے

جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر
ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے

اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں
گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے

اس کا مطلب ہے ابھی زندہ ہے پتھرائی نہیں
ہنسنے لگتا ہوں اگر آنکھ چھلک جاتی ہے

اب تسلسل سے میں خاموش نہیں رہ سکتا
بات کرلیتا ہوں خاموشی اٹک جاتی ہے

شور کرتے ہیں کسی یاد کے پنچھی مجھ میں
اور پھر بعد میں تنہائی بھڑک جاتی ہے

Leave a Comment

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کردے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے

غرور اُس پہ بہت سجا ہے مگر کہدو
اِسی میں اُس کا بھلا ہے غرور کم کردے

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑا دے شراب کم کردے

چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چراغ کی لَو کو ذرا سا کم کردے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دُعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کردے
بشیرؔ بدر

Leave a Comment

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی

وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی
اک تیرے وصل کی گھڑی ہوگی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی

زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی

اے عدم کے مسافرو! ھوشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اَڑی ہوگی

اِلتجا کا مَلال کیا کیجیۓ..؟
اُن کے در پر کہیں پڑی ہوگی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی

Leave a Comment
%d bloggers like this: