سب بیچ کر خریدا ہے خود کو یہاں کبھی
اور بیچتا ہوں خود کو ہی کر کے دکاں کبھی
دیواریں چار سُو اٹھیں کچھ اس طرح مرے
ملنے مرا نہ آ سکا سایہ یہاں کبھی
یوں بھی کبھی لگا کہ رگوں میں لہو جمے
اور اٹھتا جسم و جاں سے ہے میری دھواں کبھی
اس موڑ پہ ہے گرد ابھی تک اُڑی ہوئی
منزل نے راستے کو تھا چھوڑا جہاں کبھی
اک ڈر سے عمر بھر میں اندھیرے کئے رہا
میرا دیا جلا دے نہ میرا مکاں کبھی
اس شہر کی ہر آنکھ میں آنسو مرے ہی تھے
مشہور یوں ہوئی تھی مری داستاں کبھی
خود وقت لے کے آئے گا مرہم مرے لئے
ہے آنکھ منتظر کہ ہو ایسا سماں کبھی
بہتر ہے جی لیں اس کو جو اب پاس ہے مرے
ملتا یہاں پہ کس کو مکمل جہاں کبھی
ابرک تھا آفتاب کبھی ، یاد کیجئے
جس کو بجھا گیا تھا کوئی مہرباں کبھی