Skip to content

Month: April 2020

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے

شیشہ ہو یا دل ہو آخر، ٹوٹ جاتا ہے
لب تک آتے آتے ہاتھوں سے ساغر چھوٹ جاتا ہے

کافی بس ارمان نہیں، کچھ ملنا آسان نہیں
دنیا کی مجبوری ہے، پھر تقدیر ضروری ہے
یہ جو دشمن ہیں ایسے، دونوں راضی ہوں کیسے
ایک کو مناؤں تو دوجا، روٹھ جاتا ہے

بیٹھے تھے کنارے پہ موجوں کے اشارے پہ
ہم کھیلے طوفانوں سے، اس دل کے ارمانوں سے
ہم کو یہ معلوم نہ تھا کوئی ساتھ نہیں دیتا
ماجھی چھوڑ جاتا ہے ساحل چھوٹ جاتا ہے

دنیا ایک تماشا ہے، آشا اور نراشا ہے
تھوڑے پھول ہیں کانٹے ہیں جو تقدیر نے بانٹے ہیں
اپنا اپنا حصہ ہے، اپنا اپنا قصہ ہے
کوئی لُٹ جاتا ہے، کوئی لوٹ جاتا ہے

کیفی اعظمی

Leave a Comment

توری دید كو موری اكهیاں ترسیں

توری دید كو موری اكهیاں ترسیں
تورے هجر میں یہ چهم چهم برسیں

دو نین سے مورے بهج نہ سكے
مورا تن من دهن آج پیاسا هے
تورے اك درشن كی آس لئے
مورا لوں لوں بنا كاسہ هے

تورے عشق میں اپنی جاں واروں
اك جاں بهی موهے كم لاگے
جی چاهے كہ سارا جہاں واروں
سب جہاں بهی موهے كم لاگے
كجھ سمجھ نہ آوے میں كیا واروں

هر شے تورے حُسن سے كم لاگے
تورا حُسن بیاں میں كیسے كروں
هر بیاں توری شان سے كم لاگے

سِراج كہوں یا منیر كہوں
نزیر كہوں كے كہ بشیر كہوں
توری زُلف كا سب كو اسیر كہوں
تورے حُسن كو حسُنِ كبیر كہوں

یہ چمك دهمك سب توری جهلك
گُل پاوت هے توری هی مہك
تورے اشكوں سے بهیگی جو پلك
چهم چهم برسے ست رنگی دهنك

ولیل زلفوں كی كالی گهٹا
اس كالی گهٹا كا پرده اُٹها
موهے چن بدر سوهنا مُكھ تو دكها
جس مُكھ پہ هے كُل جہاں فدا
مورے سپنے میں هی آ جاؤ
موهے اپنا جلوه دِكها جاؤ

تورے عشق میں جو مجنوں كر دے
موهے ایسا جام پِلا جاؤ

Leave a Comment

یُوں چلے دَور تو رِندوں کا بڑا کام چَلے

یُوں چلے دَور تو رِندوں کا بڑا کام چَلے
خُم بڑھے شِیشہ جُھکے بادہ ڈَھلے جام چَلے

جِھیل کر اہل جہاں صَدمہ و آلام چَلے
شاد کام آئے جو دُنیا میں وہ ناکام چَلے

بے پِیے کُچھ نَہیں جِینے کا مَزہ اے ساقی
رات دن جام چَلے جام چَلے جام چَلے

کُوچۂ عِشق میں تَکلِیف ہی تَکلِیف رہی
ہم بہ آرام نہ آئے نہ بہ آرام چلے

ہاتھ پر ہاتھ دَھرے اہل نَظر بیٹھے ہیں
حُسن اگر کام چَلائے تو کوئی کام چلے

زِندہ رہنے کے مَقاصِد ہیں حَقِیقَت میں یہی
ہاتھ پاؤں اپنے چَلیں کام چلے نام چلے

وادئی عِشق میں رہبر کی ضَرُورَت کیا ہے
ہم چَلیں اور ہَمارا دِلِ ناکام چلے

مُسکراتے ہیں جو غُنچے،تو کِھلے جاتے ہیں پُھول
دَور جام ایسے میں اے ساقیٔ گُلفام چلے

غیر ممکن ہے بغیر اس کے محبت کا نباہ
دِل سے مِلتا نہیں جَب دل ہی تو کیا کام چلے

مُدعا یہ ہے نِکل آئے دَوبارہ خُورشِید
کہ جہاں شام ہوئی آپ سرِ بام چلے

کیوں کہا میں نے کہ سُن لِیجِئے رُودادِ سِتم
وہ بِگڑ کر اُٹھے دیتے ہوئے دَشنام چلے

حَضرت نوح اُٹھاتے ہیں جو طُوفانِ سُخن
شاید اس کا ہو یہ مَطلب کہ مرا نام چلے

Leave a Comment

مِٹا دیجیئے یا بنا دیجیئے

مِٹا دیجیئے یا بنا دیجیئے
کسی ایک جانب لگا دیجیئے

رعایت تو مجرم کی توہین ہے
رعایت نہ دیجیئے سزا دیجیئے

توجہ کی قِلت مناسب نہیں
کوئی اور تہمت لگا دیجیئے

صداقت بھی اِک روپ ہے مَکر کا
یہ ساری عمارت ہی ڈھا دیجیئے

بہاروں کی کچھ عمر بڑھ جائے گی
خدا کے لئے مسکرا دیجیئے

سوالی کو خالی نہ لوٹایئے
کم از کم خدا کو دِلا دیجیئے

نہ رہ جائے تشنہ عدم کی نماز
ذرا اِک جھلک تو دکھا دیجیئے

Leave a Comment

کیوں اور شکستہ ہوں یہ اعصاب ، لگی شرط

کیوں اور شکستہ ہوں یہ اعصاب ، لگی شرط
میں چھوڑ چکی دیکھنا اب خواب ، لگی شرط

اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب ، سنبھل کر
ہر چاند نگلتا ہے یہ تالاب ، لگی شرط

اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے
یہ بات ہے تو آج سے احباب ، لگی شرط

پھر ایک اسے فون میں رو رو کے کروں گی
پھر چھوڑ کے آجائے گا وہ جاب ، لگی شرط

اس شخص پہ بس اور ذرا کام کرونگی
سیکھے گا محبت کے وہ آداب ، لگی شرط

جو دکھ کی رتوں میں بھی ہنسی اوڑھ کے رکھیں
ہم ایسے اداکار ہیں نایاب ، لگی شرط

جب چاہوں تجھے توڑ دوں میں کھول کے آنکھیں
اے چشم اذیت کے برے خواب ! لگی شرط

Leave a Comment

وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا

وہ تو بس وعدۂ دیدار سے بہلانا تھا
ہم کو آنا تھا یقیں اُن کو مُکر جانا تھا

لاکھ ٹھُکرایا ہمیں تو نے مگر ہم نہ ٹلے
تیرے قدموں سے الگ ہو کے کہاں جانا تھا

جن سے نیکی کی توقع ہو وُہی نام دھریں
ایک یہ وقت بھی قسمت میں مری آنا تھا

بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہوا
لاکھ رنجش سہی اِک عمر کا یارانہ تھا

نزع کے وقت تو دُشمن بھی چلے آتے ہیں
ایسے عالم میں تو ظالم تجھے آ جانا تھا

عمر جب بیت چلی تو یہ کھلا راز نصیر
حسن ناراض نہ تھا عشق کو تڑپانا تھا

Leave a Comment

اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں

اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں
 
کیا ہوا گر مرے یاروں کی زبانیں چپ ہیں
میرے شاہد مرے یاروں کے سوا اور بھی ہیں
 
ہم پہ ہی ختم نہیں مسلک شوریدہ سری
چاک دل اور بھی ہیں چاک قبا اور بھی ہیں
 
سر سلامت ہے تو کیا سنگ ملامت کی کمی
جان باقی ہے تو پیکان قضا اور بھی ہیں
 
منصف شہر کی وحدت پہ نہ حرف آ جائے
لوگ کہتے ہیں کہ ارباب جفا اور بھی ہیں

ساحر لدھیانوی

Leave a Comment

اپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے

اپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے
گھر کے باہر , تیرے گلزار سے , ڈر لکتا ھے

فاصلے بن گئے , تکمیلِ محبت , کا سبب
وصلِ جاناں سے , رُخِ یارسے , ڈر لگتا ھے

اُسکی یادوں سے ھی تسکینِ تصور کرلوں
اب مجھے , محفلِ دلدار سے , ڈر لگتا ھے

سارے تبدیل ہوئے , مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے , اب پیار سے ڈر لگتا ھے

خوشبووں, لذتوں, رنگوں میں خوف پنہاں ھے
برگ سے , پھول سے, اشجار سے ڈر لگتا ھے

تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب , قربتِ بیمار سے , ڈر لگتا ھے

جنکی آمد کو سمجھتے تھے خداکی رحمت
ایسے مہمانوں کے , آثار سے , ڈر لگتا ھے

اب تو لگتا ھے, میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے , ہاتھ کے تلوار , سے ڈر لگتا ھے

تن کےکپڑے بھی عدو, پیر کے جوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئے , دَستار سے ڈر لگتا ھے

جو گلے مل لے میری جان کا دشمن ٹھہرے
اب , ہر اک , یارِ وفادار سے , ڈر لگتا ھے

ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو , گنبد و مینار , سے ڈر لگتا ھے

بن کے ماجوج , نمودار ہوا , چاروں اوڑ
اِسکی یاجوج سی, رفتار سے, ڈر لگتا ھے

عین ممکن ھے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے. کوچہ و بازار سے ڈر لگتا ھے

خوف آتا ھے صحیفوں کی تلاوت سے اب
ہر رسالے سے , ہر اخبار سے , ڈر لگتا ھے

اب تو اپنوں سے مصافحہ بھی پُر خطر ھے وھاب
یوں نہیں ھےکہ فقط اغیار سے, ڈر لگتا ھے

Leave a Comment

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے

چشم میگوں ذرا ادھر کر دے
دست قدرت کو بے اثر کر دے

تیز ہے آج درد دل ساقی
تلخی مے کو تیز تر کر دے

جوش وحشت ہے تشنہ کام ابھی
چاک دامن کو تا جگر کر دے

میری قسمت سے کھیلنے والے
مجھ کو قسمت سے بے خبر کر دے

لٹ رہی ہے مری متاع نیاز
کاش وہ اس طرف نظر کر دے

فیضؔ تکمیل آرزو معلوم
ہو سکے تو یوں ہی بسر کر دے

Leave a Comment
%d bloggers like this: