Skip to content

Month: April 2020

بچپن کے ساتھ ساتھ وہ بستہ خرید لا

بچپن کے ساتھ ساتھ وہ بستہ خرید لا
اے دل کہیں سے عہدٍ گزشتہ خرید لا

کچھ تو اداسیوں میں کمی آ ھی جائے گی
مرنے سے قبل تو ساغر و مینا خرید لا

ہم تو فقیر لوگ ہیں ڈھانپیں گے جسم کو
مہنگے لباس چھوڑ دے سستا خرید لا

اب آتشٍ فراق ھے خواہش دھواں دھواں
جا کر شراب وصلٍ یخ بستہ خرید لا

ھم کھو گئے تلاشٍ راہ کوئےٍ یار میں
کچھ تو نویدٍ سحر گُم گشتہ خرید لا

Leave a Comment

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں

بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

Leave a Comment

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام

سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام

دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام

ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے چُھپا کر کسی کا نام

اپنی زبان تو بند ہے، تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی سِتمگر کسی کا نام

ماتم سَرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غَرَض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام

قتیل شفائی

Leave a Comment

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے میں نہیں ہوں

کہا منصورؒ نے سُولی پہ چڑھ کر
انالحق کی صدا ہے میں نہیں ہوں

عبا پہنے ہوئے مٹی کی مورت
کوئی بہروپیا ہے میں نہیں ہوں

میرے پردے میں آ کر اور کوئی
تماشہ کر رہا ہے میں نہیں ہوں

جو میں ہوتا خطا مُجھ سے بھی ہوتی
مُجھے ڈر کاہے کا ہے میں نہیں ہوں

جو بولے میخانے میں جا کے بیدمؔ
وہاں نقشہ ہے میرا میں نہیں ہوں

حضرت بیدم شاہ وارثیؒ

Leave a Comment

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی​

بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی​
قسمت میں مری اتنے کہاں تھے ترے غم بھی​

جس لغزش آدم سے خلافت ہے مزین​
اس جوش محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی​

اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز​
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دم بھی​

آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار​
ہم لوگ تو بک جاتے ہیں بے دام و درم بھی​

یہ بات غلط شہر میں تم سے ہیں ہزاروں
اے جان طرب آج تو نایاب ہیں ہم بھی​

پہلے تو اعزا مرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گراں اب ترا غم بھی​

انسان کی کیا بات ہے پتھر کی سلوں پر​
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقش قدم بھی​

لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں​
ہونے کو تو یوں طالب دیدار ہیں ہم بھی​

اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں​
اس دور میں ناپید ہیں ارباب ہمم بھی​

ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ​
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک ترا غم بھی​

حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو​
کہتے ہیں اسی قریہ ہستی کو عدم بھی​

شام آئی سمندر میں چلا ڈوبنے سورج​
اک روز ترے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی​

دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات​
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی​

تو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا​
ہیں تیرے تعاقب میں ترے نقش قدم بھی​

ہر چند کہ شکوہ ہے غم ہجر کا لیکن​
جینے میں معاون ہے ترے ہجر کا غم بھی​

تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن​
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی​

میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں​
ہے میری نظر میں ترا معیار کرم بھی​

لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں ورنہ​
شیشے کی طرح گر کے بکھر جائیں گے ہم بھی​

تشخیص مرض چارہ گرو سوچ سمجھ کر​
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی​

تم لوگ زباں دے کے بھی پھر جاتے ہو اکثر​
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی​

کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلش ہے​
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی​

جو سینہ سپر عرصہ ہستی میں ہیں دانش
دشوار نہیں ان کے لیے راہ عدم بھی​

احسان دانش

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تو مرے جسم مری روح کو اچھا کر دے

کس قدر ٹُوٹ رہی ہے مری وحدت مجھ میں
اے مرے وحدتوں والے مجھے یکجا کر دے

یہ جو حالت ہے مری میں نے بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے

میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے

مجھ کو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
کور بینی کو مری دیدۂ بینا کر دے

مجھ کو وہ علم سکھا جس سے اُجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا جو مجھے زندہ کر دے

میرے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال
میرے بچوں کو مہ و مہر و ستارا کر دے

ضائع ہونے سے بچا لے مرے معبود مجھے
یہ نہ ہو وقت مجھے کھیل تماشا کر دے

میں مسافر ہوں، سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کر دے

میری آواز تری حمد سے لبریز رہے
بزمِ کونین میں جاری مرا نغمہ کر دے

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

سفر منزل شب یاد نہیں

سفر منزل شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

Leave a Comment

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا

ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا

اس کو رخصت تو کیا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا، گھر چھوڑ کے جانے والا

دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا

اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں، کوئی دیر سے جانے والا

ندا فاضلی

Leave a Comment

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زندان نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حال اب تک

حبیب جالبؔ

Leave a Comment
%d bloggers like this: