Skip to content

Month: March 2020

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ھو جانا

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ھو جانا
کیا غضب کام ھے راضی بہ رضا ھو جانا

بند آنکھو ! وہ چلے آئیں تو وا ھو جانا
اور یُوں پُھوٹ کے رونا کہ فنا ھو جانا

عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا
جب بھی تُم چاھو جُدا ھونا، جُدا ھو جانا

تیری جانب ھے بتدریج ترقّی میری
میرے ھونے کی ھے معراج ترا ھو جانا

تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ھرا ھو جانا

اک نشانی ھے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ھو جانا

تنگ آجاؤں محبت سے تو گاھے گاھے
اچھا لگتا ھے مجھے تیرا خفا ھو جانا

سی دیے جائیں مرے ھونٹ تو اے جانِ غزل
ایسا کرنا مری آنکھوں سے ادا ھو جانا

بے نیازی بھی وھی اور تعلق بھی وھی
تمہیں آتا ھے محبت میں خُدا ھو جانا

اژدھا بن کے رگ و پَے کو جکڑ لیتا ھے
اتنا آسان نہیں غم سے رھا ھو جانا

اچھے اچھوں پہ بُرے دن ھیں لہٰذا فارس
اچھے ھونے سے تو اچھا ھے بُرا ھو جانا

Leave a Comment

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو

پھرتے ہیں مثلِ موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

منیر نیازی

Leave a Comment

اُس نے پوچھا کہ کیا مُحبت ہے؟

اُس نے پوچھا کہ کیا مُحبت ہے؟
میں نے بولا، خُدا مُحبت ہے

پھول، خُوشبُو ہیں رنگ چاہت کے،
آگ ، پانی ، ہوا مُحبت ہے

اُس نے تب تب نہیں سُنا مُجھ کو،
میں نے جب جب کہا،مُحبت ہے۔

جیسے موسم کی پہلی بارش ہے،
جیسے بادِ صبا مُحبت ہے

مانگتی ہے خراج میں سب کُچھ،
ایک کرب و بلا مُحبت ہے

دیکھ حرص و ہوّس کی بستی میں،
کتنی وحشت زدہ مُحبت ہے۔

گھر کی چوکھٹ پہ رات بھر رکھا،
ایک جلتا دیا مُحبت ہے

Leave a Comment

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ

عشق میں لا جواب ہیں ہم لوگ
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ

گرچہ اہلِ شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ

شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ

ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ

ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ

ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگانِ شباب ہیں ہم لوگ

تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ

تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ

گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ

خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ

ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہروِ ملکِ خواب ہیں ہم لوگ

جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ

ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبانِ کتاب ہیں ہم لوگ

ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ

جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ

ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرمِ آں جناب ہیں ہم لوگ

(جگر مراد آبادی)​

Leave a Comment

اف یہ تیغ آزمائياں توبہ

اف یہ تیغ آزمائياں توبہ
تیری نازک کلائیاں توبہ

کیا کریں بندگانِ محبوبی
عاشقی کی خدائیاں توبہ

منزلِ عشق اے خدا کی پناہ
ہر قدم کربلائیاں توبہ

یاد و ایام و شوق و عشق و جنوں
چراغ کی فتنہ ضیائیاں توبہ

لطفِ بےگانگی معاذ اللہ
ان کی سادہ ادائیاں توبہ

حسن میں رقص کا سا اک عالم
شوق کی نے نوائیاں توبہ

ہائے غُمّازیاں نگاہوں کی
اپنی بے دست و پائیاں توبہ

اف وہ احساسِ حسن پہلے پہلے
یک بیک کج ادائیاں توبہ

اللہ اللہ عشق کی وہ جھجک
حسن کی کہربائیاں توبہ

اس کے دامن پہ دل کا جا پڑنا
ہم سے یہ بے وفائیاں توبہ

غیض سے ابروؤں پہ یہ شکنیں
دل پہ زور آزمائیاں توبہ

آستینوں کا وہ چڑھا لینا
گوری گوری کلائیاں توبہ

نظروں نظروں میں خواہش سربزم
دل ہی دل میں لڑائیاں توبہ

سوزِ غم کی شکایتیں ہائے ہائے
دردِ دل کی دُہائیاں توبہ

برملا سخت رنجشیں باہم
غائبانہ صفائیاں توبہ

اپنے مطلب سے عشق کی چھیڑیں
ظاہری بے وفائیاں توبہ

حسن و توہینِ عشق ہائے غضب
اپنی وہ خود ستائیاں توبہ

غیرتِ عشق اے معاذاللہ
اک دم بے وفائیاں توبہ

شبنم آلود وہ حسیں آنکھیں
رُخ پہ اڑتی ہوائیاں توبہ

اسکی غم التفاتیاں ہائے ہائے
اپنی بے اعتنائیاں توبہ

سرِ سودا کی سورشیں پیہم
ہر طرف جگ ہنسائیاں توبہ

رفتہ رفتہ وہ بے پناہ سکوت
سب سے آشنائیاں توبہ

موت سے ہر نَفَس وہ راز و نیاز
موت کی ہم نوائیاں توبہ

ناگہاں آمد آمد محبوب
غم کی بے انتہائیاں توبہ

یک بیک آنکھ چار ہو جانا
دیر تک رُو نمائیاں توبہ

نظروں نظروں میں سرگزشتِ فراق
دونوں جانب دہائیاں توبہ

پھر وہی چشمِ مست و جام بدست
پھر وہی نغمہ ضیائیاں توبہ

پھر وہی لب وہی تبسم ناز
پھر وہی کج ادائیاں توبہ

پھر وہ اک بے خودی کے عالم میں
مل کے باہم جدائیاں توبہ

ہجوم مے اور جنابِ جگر
پی پلا کر برائیاں توبہ

جگرمرادآبادی

Leave a Comment

یہ زمیں مسترد آسماں مسترد

یہ زمیں مسترد آسماں مسترد
ساتھ تم جو نہیں دو جہاں مسترد

اک نگاہِ کرم کا سبب نہ ہوے
منّتیں میری آہ و فغاں مسترد

مجھ کو جینے کی اب آرزو ہی نہیں
تیرے لطف و کرم جانِ جاں مسترد

دھوپ مجھ کو گوارا مگر دوستو
بھیک میں جو ملا سائباں مسترد

مجھ کو راس آ گئیں ہجر میں ہجرتیں
کیا محل جھونپڑی کیا مکاں مسترد

کچھ رقیبوں کا غلبہ تھا چوپال میں
ہو گئی یوں مری داستاں مسترد

آج قاصد کے ہاتھوں میں کچھ بھی نہیں
بالیقیں میرے سب ہی گُماں مسترد

جب خودی پر مری آنچ آنے لگی
کر دیا کوچہِ دلبراں مسترد

تشنہ تنہائی اچھی بیابان کی
محفلیں مسترد گلستاں مسترد

Leave a Comment

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں

اک خلا، ایک لا انتہا اور میں
کتنے تنہا ہیں میرا خدا اور میں

کتنے نزدیک اور کس قدر اجنبی!!
مجھ میں مجھ سا کوئی دوسرا اور میں

لوگ بھی سو گئے، روگ بھی سو گئے
جاگتے ہیں مرا رت جگا اور میں

رات اور رات میں گونجتی ایک بات
ایک خوف، اک منڈیر، اک دیا اور میں

شہر تاراج ہے، جبر کا راج ہے
پھر بھی ثابت ہیں میری انا اور میں

تیرے موسم، تری گفتگو اور تو
میری آنکھوں میں اک ان کہا، اور میں

اب تو اس جنگ کا فیصلہ ہو کوئی
لڑ رہے ہیں ازل سے ہوا اور میں

رنگ، خوشبو، شفق، چاندنی، شاعری
لکھ رہا تھا میں، اس نے کہا ”اور میں!”

اس کی بات اور ہے، ورنہ اے افتخارؔ
اس کو معلوم ہے، التجا اور میں

Leave a Comment
%d bloggers like this: