Skip to content

Month: March 2020

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرے ہوش یوں جو جاتے تو کچھ اور بات ہوتی
وہ نظر سے مے پلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

ہوئیں جلوہ گر بہاریں کھلے گل چمن میں ، لیکن
وہ جو آ کے مسکراتے تو کچھ اور بات ہوتی

مرا انجمن میں جانا کوئی اور رنگ لاتا
مجھے آپ خود بلاتے تو کچھ اور بات ہوتی

انہیں کیا یہ بات سوجھی مجھے کس لیے مٹایا
غمِ آرزو مٹاتے تو کچھ اور بات ہوتی

دمِ نزع لے کے پہنچا ہے پیام ان کا قاصد
وہ جو آپ چل کے آتے تو کچھ اور بات ہوتی

کئی بار ہاتھ مجھ سے وہ ملا چکے ہیں، لیکن
جو نصیر ،دل ملاتے تو کچھ اور بات ہوتی

پیر سیدنصیر الدین نصیر رح

Leave a Comment

خوف کے تاریک زنداں میں بٹھایا جائے گا

خوف کے تاریک زنداں میں بٹھایا جائے گا
ہم پریشاں حال لوگوں کو ستایا جائے گا

چرچ ، کعبے ، مسجد و مندر کی ویرانی تو دیکھ
روٹھ بیٹھا جب خدا ، کیسے منایا جائے گا

خالق و مخلوق پر یکساں پڑی اُفتاد یہ
سو دعا کو معجزے سے جا ملایا جائے گا

پھر کبھی غنچے کِھلے تو جشن کا سوچیں گے ، پر
اِس بہاراں کا تو ماتم ہی منایا جائے گا

کیا خبر تھی لمس کی برکت کو ترسیں گے یہاں
ہاتھ تک لگتا نہیں ، دل کیا لگایا جائے گا

روشنی کے سب حوالوں کو نِگل جائے گی رات
اِن چراغوں کو بھی دریا میں بہایا جائے گا

پھول ، تتلی ، پیڑ ، جگنو ، رنگ ، خوشبو ، چاندنی
ہم نہ ہوں گر ، یہ تماشا کیوں رچایا جائے گا ؟

ایک جھٹکے میں زمین و آسماں بدلے گئے
کیا مرے نقصاں کا اندازہ لگایا جائے گا ؟

برسرِ پیکار سب ہیں ، یہ لڑائی سب کی ہے
ایک بھی ہارا اگر ، اپنا پرایا جائے گا

ان گنت صدیوں کا کچھ دن میں تمدّن لے اُڑی
اے کرونا کی وبا ، کب تیرا سایہ جائے گا

نوعِ انساں کی ترقی کے سفر کی خیر ہو
یہ نیا عفریت بھی اک دن ہرایا جائے گا

Leave a Comment

میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے

میرے کشکول میں بس سکۂ رد ہے حد ہے
پھر بھی یہ دل مرا راضی بہ مدد ہے حد ہے

غم تو ہیں بخت کے بازار میں موجود بہت
کاسۂ جسم میں دل ایک عدد ہے حد ہے

آج کے دور کا انسان عجب ہے یا رب
لب پہ تعریف ہے سینے میں حسد ہے حد ہے

تھا مری پشت پہ سورج تو یہ احساس ہوا
مجھ سے اونچا تو مرے سائے کا قد ہے حد ہے

مستند معتمد دل نہیں اب کوئی یہاں
محرم راز بھی محروم سند ہے حد ہے

میں تو تصویر جنوں بن گیا ہوتا لیکن
مجھ کو روکے ہوئے بس پاس خرد ہے حد ہے

رنگ اخلاص بھروں کیسے مراسم میں ندیمؔ
اس کی نیت بھی مری طرح سے بد ہے حد ہے

Leave a Comment

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات

ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے

تم ہی نہ سن سکے اگر قصۂ غم سنے گا کون
کس کی زباں کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے

ہوش میں آ چکے تھے ہم جوش میں آ چکے تھے ہم
بزم کا رنگ دیکھ کر سر نہ مگر اٹھا سکے

رونق بزم بن گئے لب پہ حکایتیں رہیں
دل میں شکایتیں رہیں لب نہ مگر ہلا سکے

شوق وصال ہے یہاں لب پہ سوال ہے یہاں
کس کی مجال ہے یہاں ہم سے نظر ملا سکے

ایسا ہو کوئی نامہ بر بات پہ کان دھر سکے
سن کے یقین کر سکے جا کے انہیں سنا سکے

عجز سے اور بڑھ گئی برہمی مزاج دوست
اب وہ کرے علاج دوست جس کی سمجھ میں آ سکے

اہل زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہل دل
کون تری طرح حفیظؔ درد کے گیت گا سکے

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے

تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے

دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تُند ہیں شعلے ،،، سرخ ہے آہن

کُھلنے لگے ہیں قفلوں کے دہانے
پھیلا ہے ہر اک زنجیر کا دامن

بول کہ یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

فیض احمد فیض

Leave a Comment

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر

وفا ہو کر، جفا ہو کر، حیا ہو کر، ادا ہو کر
سمائے وہ میرے دل میں نہیں معلوم کیا ہو کر

میرا کہنا یہی ہے تو نہ رُخصت ہو خفا ہو کر
اب آگے تیری مرضی، جو بھی تیرا مُدعا ہو، کر

معاذاللّه! یہ عالم بتوں کی خود نمائی کا
کہ جیسے چھا ہی جائیں گے خدائی پر، خدا ہو کر

بہر صورت وہ دل والوں سے دل کو چھین لیتے ہیں
مچل کر، مسکرا کر، روٹھ کر، تن کر، خفا ہو کر

نہ چھوڑو ساتھ میرا ہجر کی شب ڈوبتے تارو
نہ پھیرو مجھ سے یوں آنکھیں، مرے غم آشنا ہو کر

اِنھیں پھر کون جانچے، کون تولے گا نگاہوں میں
اگر کانٹے رہیں گُلشن میں پھولوں سے جدا ہو کر

سنبھالیں اپنے دل کو ہم کہ روئیں اپنی قسمت کو
چلے ہیں اے نصیرِ زار، وہ ہم سے خفا ہو کر

Leave a Comment

بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں

بَن کے تصویرِ غم رہ گئے ہیں
کھوئے کھوئے سے ہم رہ گئے ہیں
کیجیئے جو سِتم رہ گئے ہیں
جان دینے کو ہم رہ گئے ہیں
بانٹ لیں سب نے آپس میں خوشیاں
میرے حصے میں غم رہ گئے ہیں
قافلہ چل کے منزل پہ پہنچا
ٹھہرو ٹھہرو میں ہم رہ گئے ہیں
اب نہ اُٹھنا سِرہانے سے میرے
اب تو گِنتی کے دَم رہ گئے ہیں
اللہ اللہ یہ کِس کی گلی ہے
اُٹھتے اُٹھتے قدم رہ گئے ہیں
کائناتِ جفا و وفا میں
ایک تُم ایک ہم رہ گئے ہیں
دیکھ کر اُن کے منگتوں کی غیرت
دنگ اہلِ کرم رہ گئے ہیں
ہم سے اللہ والے کہاں اب
آپ جیسے صنم رہ گئے ہیں
دو قدم چَل کے راہِ وفا میں
تھک گئے تُم کے ہم رہ گئے ہیں
وہ تو آ کر گئے بھی کبھی کے
دِل پہ نقشِ قدم رہ گئے ہیں
آج ساقی پِلا شیخ کو بھی
اِک یہی محترم رہ گئے ہیں
وہ گئے جِن کے دَم سے تھی رونق
اور رہنے کو ہم رہ گئے ہیں
اُن کی ستاریاں کچھ نہ پوچھو
عاصیوں کے بھرم رہ گئے ہیں
اے صبا __ ایک زحمت ذرا پِھر
اُن کی زُلفوں کے خم رہ گئے ہیں
دورِ ماضی کی تصویرِ آخر
اب نصیر ایک ہم رہ گئے ہیں
دِل نصیر اُن کا تھا لے گئے وہ
غم خدا کی قسم رہ گئے ہیں
سید نصیر الدین نصیر

Leave a Comment
%d bloggers like this: