کیوں کرتے ہو دنیا کی ہر اک بات سے توبہ
منظور تو ہے میری ملاقات سے توبہ
کیوں کر نہ کروں شورِ مناجات سے توبہ
آغاز ہو جب چار گھڑی رات سے توبہ
زاہد نے چُھپایا ہے اُسے گوشہ دِل میں
بھاگی تھی کسی رندِ خرابات سے توبہ
یہ فصل اگر ہو گی تو ہر روز پییں گے
ہم مے سے کریں توبہ کے برسات سے توبہ
کیوں کر وہ اِدھر آۓ کہ اے حضرتِ زاہد
بچتی ہی نہیں قبلہ حاجات سے توبہ
تعریفِ صنم بات ہے ، پتھر نہیں زاہد
کیا ٹوٹ گئی حرف و حکایات سے توبہ
بیعت بھی جو کرتا ہے تو وہ دستِ سبو پر
چکراتی ہے کیا رندِ خرابات سے توبہ
اللّه دکھاۓ نہ مجھے روز و شبِ ہجر
اُس دن سے حذر کیجیے اُس رات سے توبہ
خود ہم نہ ملیں گے ، نہ کہیں جائیں گے مہماں
کی آپ نے واللہ نئی گھات سے توبہ
کافر تری تقریر تو اچھی ہے کریں کیا
کرتے ہیں مسلمان بُری بات سے بات
وہ آئی گھٹا جھوم کے للچانے لگا دل
واعظ کو بلاؤ کہ چلی ہات سے توبہ
پُھسلاتے ہیں کیوں آپ مجھے حضرتِ ناصح
منت سے کروں گا نہ مدارات سے توبہ
آفت ہے ، قیامت ہے یہ پاداش ، غضب ہے
توبہ ، عملِ بد کی مکافات سے توبہ
دنیا میں کوئی بات ہی اچھی نہیں زاہد
اِس بات سے توبہ ، کبھی اُس بات سے توبہ
مسجد نہیں دربار ہے یہ پیرِ مغاں کا
دروازے کے باہر رہے اوقات سے توبہ
اُمید ہے مجھ کو یہ ندا آۓ دمِ مرگ
مقبول ہوئی اس کی عنایات سے توبہ
یہ داغِؔ قدح خوار کے کیا جی میں سمائی
سنتے ہیں کیے بیٹھے ہیں وہ رات سے توبہ
داغ دہلوی
Leave a Comment