Skip to content

Month: February 2020

ﺗﺮﺳﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ , ﺍﺩﺍﺱ ﭼﮩﺮﮦ

, ﺗﺮﺳﺘﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ , ﺍﺩﺍﺱ ﭼﮩﺮﮦ
ﻧﺤﯿﻒ ﻟﮩﺠﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ
, ﺑﮑﮭﺮﯼ ﺯﻟﻔﯿﮟ , ﻟﺒﺎﺱ ﺍﺟﮍﺍ
ﻭﺟﻮﺩ ﺧﺴﺘﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﻋﻤﯿﻖ ﺟﻨﮕﻞ, ﮔﮭﭗ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ, ﮈﻭﺑﯽ
ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ,ﺿﻌﯿﻒ ﺩﮬﮍﮐﻦ
, ﺑﺮﮨﻨﮧ ﭘﺎﺅﮞ , ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﻨﺰﻝ
ﻧﺸﺎﮞ ﻧﮧ ﺭﺳﺘﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﻠﺒﻞ , ﺳﺮﺩ ﭘﺖ ﺟﮭﮍ, ﺑﮯ
ﺭﻧﮓ ﻣﻮﺳﻢ,ﻭﯾﺮﺍﻥ ﮔﻠﺸﻦ
ﻧﮧ ﭘﮭﻮﻝ ﺧﻮﺷﺒﻮ , ﮨﻮﺍ ﻧﮧ ﺑﺎﺩﻝ ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻐﻤﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﺍﻣﯿﺪ ﻣﺪﮬﻢ ,ﻣﺰﺍﺝ ﺑﺮﮬﻢ, ﻣﺎﯾﻮﺱ
ﺟﯿﻮﻥ , ﺑﮯ ﺁﺱ ﮨﺮ ﺩﻡ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ
ﺣﺴﺮﺕ, ﻧﮧ ﮨﮯ ﺗﻤﻨﺎ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

ﮐﺎﻟﯽ ﺻﺒﺤﯿﮟ , ﺳﺮﺥ ﺭﺍﺗﯿﮟ , ﻭﻗﺖ
ﺳﺎﮐﻦ , ﺍﺩﺍﺱ ﺷﺎﻣﯿﮟ
ﮨﺰﺍﺭ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ , ﮨﺮ
ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﺗﻌﻮﯾﺰ ﺍﻟﭩﮯ , ﺍﺩﮬﻮﺭﯼ ﻣﻨﺖ
ﻭﻇﯿﻔﮯ , ﺟﺎﺩﻭ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﺳﺎﺭﮮ
ﻧﮧ ﺍﺳﺘﺨﺎﺭﮦ ﮨﯽ ﮐﺎﻡ ﺁﯾﺎ , ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮬﺎﮔﮧ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﻋﺠﯿﺐ ﻗﺴﻤﺖ , ﻧﺼﯿﺐ ﺍﻟﺠﮭﺎ
ﻏﻠﻂ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻘﺪﺭ
ﮨﺎﮞ ﮔﺮﺩﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺘﺎﺭﮦ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

, ﮨﺠﺮ ﮐﺎﻣﻞ , ﻓﺮﺍﻕ ﺣﺎﻭﯼ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﯾﮑﺴﺮ , ﻃﻮﯾﻞ ﺩﻭﺭﯼ
, ﺧﻮﺍﺏ ﻗﺮﺑﺖ , ﻭﺻﺎﻝ ﺣﺴﺮﺕ
ﺭﺿﺎ ﮨﮯ ﺗﻨﮩﺎ , ﺑﻐﯿﺮ ﺗﯿﺮﮮ

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟
رُوٹھے گا کون ، کس کو منایا کریں گی آپ ؟

وہ جا رھا ھے صُبحِ مُحبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ

اب کون “خود پرست” ستائے گا آپکو ؟؟
کِس بے وفا کے ناز اُٹھایا کریں گی آپ ؟

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ

گمنام الجھنوں میں گُزاریں گی رات دن
بیکار اپنے جی کو جلایا کریں گی آپ

اب لذتِ سماعتِ رھرو کے واسطے
اُونچے سُروں میں گیت نہ گایا کریں گی آپ

ھمجولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات
ماضی کے واقعات سُنایا کریں گی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون ، کِس کو ڈرایا کریں گی آپ ؟

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئیگا
مِلنے سہیلیوں سے نہ جایا کریں گی آپ

غصے میں نوکروں سے بھی الجھیں گی بار بار
معمولی بات کو بھی بڑھایا کریں گی آپ

پھر اسکے بعد ایک وہ منزل بھی آئیگی
دِل سے مرا خیال ھٹایا کریں گی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ھجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو لگایا کریں گی آپ

آئے گا پھر وہ دِن بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ھی نہ پایا کریں گی آپ

“نقشِ کُہن” کو دل سے مِٹانا ھی چاھئیے
گزرے ھُوئے دِنوں کو بھُلانا ھی چاھئیے

Leave a Comment

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺗﯿﻮﺭ نہیں ﺑﮭﻼ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ
ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺻﻔﺤﺌﮧ ﺯﯾﺴﺖ ﮐﻮ ﭘﻠﭩﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ
ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺳﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺧﻂ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﮯ ﮔﯽ ﮔﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﺗﻢ ﺍﮔﺮﺧﻮﺩ ﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺳﺮﺩ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﻨﺎﭨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺁﺝ ﺗﻮ ﻣﺤﻔﻞ ﯾﺎﺭﺍﮞ ﭘﮧ ﮨﻮ ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺑﮩﺖ
ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﭨﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﮑﮭﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺏ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺷﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻮﻧﭽﮭﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺷﺎﻝ ﭘﮩﻨﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺑﺎﺭﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯿﮕﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺣﺎﺩﺛﮯ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻢ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻧﮉﮬﺎﻝ
ﮐﺴﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﻮ ﮔﮯ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺨﺖ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﺳﯿﺎﮦ ﺭﻧﮓ ﺟﻮ ﭘﮩﻨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﺁﺅﻧﮕﺎ

وصی شاہ

Leave a Comment

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں

پاؤں کا دھیان تو ہے راہ کا ڈر کوئی نہیں
مجھ کو لگتا ہے مرا زادِ سفر کوئی نہیں

بعض اوقات تو میں خود پہ بہت چیختا ہوں
چیختا ہوں کہ اُدھر جاؤ جدھر کوئی نہیں

سر پہ دیوار کا سایا بھی اُداسی ہے مجھے
ظاہراً ایسی اداسی کا اثر کوئی نہیں

آخری بار مجھے کھینچ کے سینے سے لگا
اور پھر دیکھ مجھے موت کا ڈر کوئی نہیں

خودکشی کرتے سمے پوچھتا ہوں میرا عزیز؟
اور آواز سی آتی ہے تُو مَر ! کوئی نہیں

بھری دنیا ہے سسکنے میں جھجک ہو گی تمہیں
یہ مرا دل ہے ادھر رو لو ادھر کوئی نہیں

ایک دن لوگ مجھے تخت نشیں دیکھیں گے
یا یہ دیکھیں گے مرا جسم ہے سَر کوئی نہیں

اُس کی ہجرت بڑا اعصاب شکن سانحہ تھی
شہر تو شہر ہے جنگل میں شجر کوئی نہیں

صبح سے رات کی مایوسی بھگانے کا سبب
کوئی تو ہوتا مرے دوست مگر کوئی نہیں

بے خیالی سی مجھے گود میں بھر لیتی ہے
در پہ دستک ہو تو کہہ دیتا ہوں گھر کوئی نہیں

Leave a Comment

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں

آؤ آج تمھیں اک کہانی سناتا ہوں میں
قصہ دلِ برباد کا اپنی زبانی سناتا ہوں میں

سرِ بزم جو کبھی کوئ پکارے نام اُسکا
بےساختہ سا کلیجہ اپنا تھام لیتا ہوں میں

وہ جو دن کو کہہ دیتی ہے رات کبھی
اعتبار دیکھو، رات مان کے سو جاتا ہوں میں

اُسکے لمس کی شدتوں کا مارا۔۔۔ہر روز
اُسکی تصویر سینے سے لگا کے رو جاتا ہوں میں

جانتا ہوں وہ دلنشیں آنکھیں بےوفا ہیں مگر
پھر بھی اُن میں ڈوبتا چلا جاتا ہوں میں

وہ کہتی ہے میرے عشق میں تم مارے جاؤ گے
جنوں دیکھو۔۔۔کہ مرنے پہ تُلا جاتا ہوں میں

وہ جن لمحوں میں میرے ساتھ ہوتی ہے
بس اُنہی لمحوں میں جیا جاتا ہوں میں

کہنے کو بہت ہیں مہ جبینیں جہاں میں
اک اُسی سادہ سے خدوخال پہ لُٹا جاتا ہوں میں

وہ اک شام کہ جب اُس نے کہا تھا مجھے اپنا
بس وہی اک بات بار بار سُننا چاہتا ہوں میں

میرا سَر اپنی گود میں رکھ کے میرے بالوں سے کھیلنا
کبھی یوں بھی پیار سے سہلایا جاتا ہوں میں

تیرے ہونے سے میری جان، جان میں جان تھی
اب تو یوں سمجھو بےجان سا ہوا جاتا ہوں میں

اکثر راتوں میں تنہائ سے عاجز آ کر
بہت دیر تک تجھے ہی سوچتا چلا جاتا ہوں میں

تم تھی تو گویا پوری کائنات تھی مٹھی میں میری
اب تو اے جاں، بہت اکیلا سا ہوا جاتا ہوں میں

عجب ہے یہ رمزِ عشق بھی جاناں
تو جتنا دور جاۓ اُتنا قریب ہوا جاتا ہوں میں

جو ہستے ہوۓ تھکتا نا تھا اب بولتا بھی نہیں
دیکھ تو زرا۔۔۔کیا سے کیا ہوا جاتا ہوں میں

تیری عادتیں اپنا لی ہیں، تیری باتیں دوہراتا ہوں
کہ اب تو ہوباہو “تم” ہوا جاتا ہوں میں

اکثر عالمِ تنہائ میں تُجھے تصَور میں لا کر
تجھ سے پہروں باتیں کیا جاتا ہوں میں

میری دیوانگی کی حد سے تو انجان ہے اب تک
کہ حد میں رہ کر۔۔۔بےحد تجھے چاہتا ہوں میں

تو اکثر پوچھتی تھی نا بچھڑے تو کیا ہو گا میرا
آ زرا دیکھ تو صحیح کتنا برباد ہوا جاتا ہوں میں

میرا سفر تیرے لیۓ، میری منزل بھی فقط تو تھی
تجھ سے شروع ہوتا ہوں تجھ پہ ہی ختم ہوا جاتا ہوں میں

یہ دل تیرے نام پہ دھڑکتا، یہ سانسیں تجھ سے چلتی ہیں
تم بن تو جیسے کوئ زندہ لاش ہوا جاتا ہوں میں

اک ادھوری سی بات ہے جسے مکمل کرنے کے واسطے
جانے کتنے برسوں سے تیرا منتظر ہوا جاتا ہوں میں

دیکھ کیسے نکھر نکھر کے بگڑا ہوں تیرے عشق میں
کسی سے جو ملوں تو تیرے بارے ہی پوچھتا جاتا ہوں میں

سُنا ہے تیری محبت نے بخشا ہے میرے الفاظ کو درد گہرا
لوگ کہتے ہیں کہ۔۔۔شاعر ہوا جاتا ہوں میں

کبھی موقع ملا تو سُناؤں گا تجھے اپنی وہ اک غزل بھی
جس میں لفظ با لفظ، تن با تن، سانس در سانس تیرے نام کیئے جاتا ہوں میں

Leave a Comment

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں

ہم سا بھی ہو گا نہ جہاں میں کوئی ناداں جاناں
بے رخی کو بھی جو سمجھے تیرا احساں جاناں

جب بھی کرتی ہے میرے دل کو پریشاں دنیا
یاد آتی ہے تیری زلفِ پریشاں جاناں

میں تیری پہلی نظر کو نہیں بھولا اب تک
آج بھی دل میں ہے پیوست وہ پیکاں جاناں

مجھ سے باندھے تھے بنا کر جو ستاروں کو گواہ
کر دیے تو نے فراموش وہ پیماں جاناں

کبھی آتے ہوئے دیکھوں تجھے اپنے گھر میں
کاش پورا ہو میرے دل کا یہ ارماں جاناں

اک مسافر کو تیرے شہر میں موت آئی ہے
شہر سے دور نہیں گورِ غریباں جاناں

یہ تیرا حسن یہ بے خود سی ادائیں تیری
کون رە سکتا ہے ایسے میں مسلماں جاناں

کیوں تجھے ٹوٹ کے چاہے نہ خدائی ساری
کون ہے تیرے سوا یوسفِؑ دوراں جاناں؟

جاں بلب، خاک بسر، آہ بہ دل، خانہ بدوش
مجھ سا کوئی بھی نہ ہو بے سر و ساماں جاناں

یہ تو پوچھ اس سے جس پر یہ بلا گزری ہے
کیا خبر تجھ کو کہ کیا ہے شبِ ہجراں جاناں

یہ وە نسبت ہے جو ٹوٹی ہے نہ ٹوٹے گی کبھی
میں تیرا خاک نشیں، تو میرا سلطاں جاناں

وە تو اک تمہارا ساتھ تھا کہ آڑے آیا
ورنہ دھر لیتی مجھے گردشِ دوراں جاناں

کیا تماشہ ہو کہ خاموش کھڑی ہو دنیا
میں چلوں حشر میں کہتے ہوئے جاناں جاناں

در پہ حاضر ہے ترے آج نصیرِؔ عاصی
تیرا مجرم تیرا شرمندۂ احساں جاناں

سید نصیر الدین نصیرؔ

Leave a Comment

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟

جہان بھر میں کسی چیز کو دوام ھے کیا ؟
اگر نہیں ھے تو سب کچھ خیالِ خام ھے کیا ؟

اُداسیاں چلی آتی ھیں شام ڈھلتے ھی
ھمارا دل کوئی تفریح کا مقام ھے کیا ؟

وھی ھو تُم جو بُلانے پہ بھی نہ آتے تھے
بِنا بُلائے چلے آئے ! کوئی کام ھے کیا ؟

جواباً آئی بڑی تیز سی مہک مُنہ سے
سوال یہ تھا کہ مولانا ! مَے حرام ھے کیا ؟

بتا رھے ھو کہ رسمی دُعا سلام ھے بس
دُعا سلام کا مطلب دُعا سلام ھے کیا ؟

تو کیا وھاں سے بھی اب ھر کوئی گذرتا ھے ؟
وہ راہِ خاص بھی اب شاھراہِ عام ھے کیا ؟

مَیں پُوچھ بیٹھا: تُمہیں یاد ھے ھمارا عشق ؟
جواب آیا کہ تُو کون ؟ تیرا نام ھے کیا ؟

اک ایک کرکے سبھی یار اُٹھتے جاتے ھیں
درُونِ خانہ کوئی اور انتظام ھے کیا ؟

بری کرانا ھے ابلیس کو کسی صُورت
خُدا کے گھر میں کسی سے دُعا سلام ھے کیا ؟

جواب آیا کہ فرفر سُناؤں ؟ یاد ھے سب
سوال یہ تھا کہ یہ آپ کا کلام ھے کیا ؟

تُو بے وفائی کرے اور پھر یہ حُکم بھی دے
کہ بس ترا رھے فارس، ترا غُلام ھے کیا ؟

رحمان فارس

Leave a Comment

میں نعرۂ مستانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخئ رِندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہُوتی، میں جوہرِ ملکُوتی
ناسُوتی نے کب مُجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خُود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِؔ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اِک ٹُوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

واصف علی واصفؔ

Leave a Comment

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں

خواب دیرینہ سے رخصت کا سبب پوچھتے ہیں
چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں

کیسے خوش طبع ہیں اس شہر دل آزار کے لوگ
موج خوں سر سے گزر جاتی ہے تب پوچھتے ہیں

اہل دنیا کا تو کیا ذکر کہ دیوانوں کو
صاحبان دل شوریدہ بھی کب پوچھتے ہیں

خاک اڑاتی ہوئی راتیں ہوں کہ بھیگے ہوئے دن
اول صبح کے غم آخر شب پوچھتے ہیں

ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں

یہی مجبور یہی مہر بہ لب بے آواز
پوچھنے پر کبھی آئیں تو غضب پوچھتے ہیں

کرم مسند و منبر کہ اب ارباب حکم
ظلم کر چکتے ہیں تب مرضیٔ رب پوچھتے ہیں

افتخار عارف

Leave a Comment
%d bloggers like this: