Skip to content

Month: December 2019

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ

ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺳﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﺲ ﻗﺮﺽ ﮐﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺩﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺗﮭﮏ ﮨﺎﺭ ﮐﮯ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﮯ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﺤﺴﻦ ﮨﮯ ﮔﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﯾﻮﺳﻒ ﺳﺎ ﺣﺴﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ
ﯾﻌﻘﻮﺏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﻮ ِﻧَﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺁ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ
ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﺷﻤﻊ ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻣﺪ ﮐﻮ ﺟﻼﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺮ ِﺷﺎﻡ
ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﺮﻭﺍﻧﮯ ﻓﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﮐﭽﮫ ﻋﺎﻟﻢ ِﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺳﺎﺗﮫ
ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺭﮨﯿﮟ ﺳﯿﻼﺏ ﺯﺩﮦ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
ﻣﺤﺴﻦ ﮐﻮ ﺷﺐِ ﻭﺻﻞ ﻣﻼ ﺟﺎﻡ ﺑَﻤﺸﮑﻞ
ﮨﻮ ﭘﺎﺋﮯ ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺟﺪﺍ ﺭﺍﺕ ﮔﺌﮯ ﺗﮏ
(محسن نقوی)

Leave a Comment

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا

اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی پسند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا

اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھُلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا

اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی، سب کارِ ثواب نہیں ہوتا

میرے چاروں طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بیتاب نہیں ہوتا

یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا، کبھی سچا خواب نہیں ہوتا

کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو، اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی، کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا

میری باتیں جیون سپنوں کی، میرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا، مجھ سے آداب نہیں ہوتا

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں

بس اندھیرا دکھائی دیتا ہوں
کس کو اب میں سجھائی دیتا ہوں

میری چپ پر نہ کان دھرنا تم
جب نہ بولوں دہائی دیتا ہوں

اب کوئی واسطہ نہیں تجھ سے
پھر بھی تجھ کو صفائی دیتا ہوں

زندگی بازگشت ہے ابرک
سو مسلسل سنائی دیتا ہوں

Leave a Comment

بیداری

بیداری

جس بندۂِ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق

اس کی نگہِ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار
ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوتِ اشراق

اس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندۂِ آفاق ہے ، وہ صاحبِ آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی
وہ پاکئِ فطرت سے ہوا محرمِ اعماق

علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: ضربِ کلیم

Leave a Comment
%d bloggers like this: