Skip to content

Month: December 2019

اَشک دَر اَشک

اَشک دَر اَشک ، دُہائی کا ثمر دیتے ہیں
اُن کے آثار ، جدائی کی خبر دیتے ہیں

غالباً یہ مرے چپ رہنے کا خمیازہ ہے
تجھ کو آواز مرے شام و سَحَر دیتے ہیں

جان دے جانے کا جو پختہ اِرادہ کر لوں
جان ‘‘ کہہ کر مجھے بے جان سا کر دیتے ہیں

لفظ مردہ ہیں ، لغت کوئی اُٹھا کر دیکھو
صرف جذبات ہی لفظوں کو اَثر دیتے ہیں

ایک گمنام اُداسی نے مجھے گھیر لیا
آج وُہ ہنستے ہُوئے اِذنِ سفر دیتے ہیں

چند اِحباب ، مسیحائی کی قسمیں کھا کر
زَخم کو کھود کے ، بارُود سا بھر دیتے ہیں

قیسؔ دِل کا نہ تعلق بنے جن لوگوں سے
ساتھ سو شرطوں پہ دیتے ہیں ، اَگر دیتے ہیں

Leave a Comment

ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ

ﺳُﻮﻟﯽ ﺍُﺗﮯ ﭼﮍﮬﻨﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﺷﺎﻡ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﻣﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﻣُﻨﮧ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺪﺍ
ﯾﺎﺩ ﺩِﻻﮞ ﻭﭺ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﺷﻤّﻊ ﺩﺍ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ
ﻭﺍﻧﮓ ﭘﺘﻨﮕﺎﮞ ﺳﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﻏﯿﺮﺍﮞ ﻧﺎﻝ ﺗﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮍﺩﺍ
ﻧﻔﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻝ ﻟﮍﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺎﺭُﻭ ﺑﻦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﮮ
ﻋﺸﻖ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺗَﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﻧﺎﮞ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﺑﻠﯿﺲ ﺩﺍ ﮐﻢ ﺍﯾﮟ
ﺳِﺮ ﭘﯿﺮﺍﮞ ﺗﮯ ﺩﮬﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ
ﺟِﺖ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﺐ ﻧﻮﮞ سائیں
ﯾﺎﺭ ﺩﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﮨﺮﻧﺎ ﺍﻭﮐﮭﺎ

Leave a Comment

‏احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت

‏احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت
اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ پہنچا ہے

میرے اشکوں کو شکایت نہیں کوئی تم سے
مجھ کو اپنی ہی کسی بات سے دُکھ پہنچا ہے

شکیب جلالی

Leave a Comment

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا

کچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھر یوں ہوا کہ خود میرا چہرا بدل گیا

حیرت سے سارے لفظ اسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا

قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا

کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو

اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو

یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو

ہر بزم میں‌ موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو

اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو

وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو

آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو

اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو

احمد فراز

Leave a Comment
%d bloggers like this: