کردار زندگی کی جبینوں میں جڑ گئے
جس عمدگی کے ساتھ وہ افسانے گھڑ گئے
لہروں کی جنگ ریت کا نقصان کر گئی
اور چودھویں کی رات کو ساحل بچھڑ گئے
وہ شخص اٹھ کے چل دیا جب ان کی چھاؤں سے
ہائے تمام پیڑ جڑوں سے اکھڑ گئے
اک چیختا سکوت مسلط تھا باغ پر
سہمے ہوئے درخت تحیر میں پڑ گئے
ذہنی فتور عشق کو برباد کر گیا
دونوں انا پرست تھے سو ضد پہ اڑ گئے
صد شکر آپ سا بھی معوذ نہیں کوئی
تھوڑا بلند کیا ہوئے تیور بگڑ گئے
معوذ حسن
Be First to Comment