Skip to content

عجب اداسی ہے

عجیب دن ہیں مرے اور عجب اداسی ہے
ترے بغیر مرے یار سب اداسی ہے

مجھے نواز کوئی ہجر سے بھرا ہوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اداسی ہے

کبھی کبھی تو الف لام میم کھلتا ہے
کبھی کبھی تو یہ لگتا ہے رب اداسی ہے

ہماری مستی الستی ہمارا سوگ بہشت
ہمارے ہونے کا شاید سبب اداسی ہے

اک اور لہر بھی ہوتی ہے لہر کے اندر
اسی لیے تو میاں زیر لب اداسی ہے

تری کمی کا بھی اب دن منائیں گے ہم لوگ
اور اس کا نام رکھیں گے غضب اداسی ہے

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: