شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے
میں بھٹکتا ہوں میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے
جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر
ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے
اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں
گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے
اس کا مطلب ہے ابھی زندہ ہے پتھرائی نہیں
ہنسنے لگتا ہوں اگر آنکھ چھلک جاتی ہے
اب تسلسل سے میں خاموش نہیں رہ سکتا
بات کرلیتا ہوں خاموشی اٹک جاتی ہے
شور کرتے ہیں کسی یاد کے پنچھی مجھ میں
اور پھر بعد میں تنہائی بھڑک جاتی ہے
Be First to Comment