اجڑ رہے تھے محبت میں درج ذیل تمام
بہار ، پیڑ ، ہوا ، رنگ ، پھول ، بیل ، تمام
ابھی تو دل بڑا سینے میں رعب جھاڑتا ہے
اِدھر یہ دھڑکنیں بگڑیں اُدھر یہ کھیل تمام
وہ جن فضاؤں میں لیتا تھا سانس میں بھی وہیں
اس اشتراک سے قائم تھا تال میل تمام
تجھے ہی شوق تھا ہر تجربہ کیا جائے
سو اب یہ ہجر کی وحشت بدن پہ جھیل تمام
یہ زندگی مجھے سارے سبق سکھاتی رہی
میں ایک پاس ہوئی امتحاں میں ، فیل ، تمام
نشانہ باندھنے والو ، خدا کا خوف کرو
اڑا بھی سکتی ہے پنچھی مِرے ، غلیل تمام
کومل جوئیہ
Be First to Comment