Skip to content

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

نہ مرے زخم کِھلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے

یوں تو لگتا ہے کہ قسمت کا سکندر ہے فرازؔ
مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: