ہَنگامَہ ہے کیوں بَرپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
نا تَجرِبَہ کاری سے واعِظ کی یہ ہیں باتیں
اِس رَنگ کو کَیا جانے پُوچھو تَو کبھی پی ہے
اُس مَے سے نہیں مَطلَب دِل جِس سے ہو بیگانہ
مَقصُود ہے اُس مَے سے دِل ہی میں جو کِھنچتی ہے
سُورج میں لَگے دَھبّا فِطرَت کے کَرِشمے ہیں
بُت ہَم کو کہیں کافَر اللہ کی مرضی ہے
اے شوق وہی مَے پی اے ہوش ذرا سو جا
مَہمانِ نَظَر اِس دم ایک برقِ تَجَلّی ہے
ہر ذرّہ چَمکتا ہے اَنوارِ اِلہٰی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تَو خُدا بھی ہے
واں دِل میں کہ صَدمے دو، یاں جی میں کہ سب سَہہ لو
اُن کا بھی عَجّب دِل ہے میرا بھی عَجّب جی ہے
تَعلِیم کا شَور اَیسا تَہذِیب کا غُل اِتنا
بَرکت جو نہیں ہوتی نِیََت کی خرابی ہے
سَچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعَتِ حق لازِم
ہاں تَرکِ مے و شاہد یہ اُن کی بُزرگی ہے
اکبرؔ الہ آبادی
Be First to Comment