گلاب آنکھیں شراب آنکھیں
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں
~ ساغر صدیقی
Be First to Comment