کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے
زندگی یوں گزار دی ہم نے
آئینہ دیکھ کر یوں گھبرائے
اپنی صورت اتار دی ہم نے
راستے نے تو منزلیں دی ہمیں
اس کو گرد و غبار دی ہم نے
سالِ فردا سے گفتگو جب کی
بس نویدِ بہار دی ہم نے
مانتا ہی نہیں جہاں ہم کو
گو دلیلیں ہزار دی ہم نے
اک نئی روح پھونک دی رب نے
کبھی ہمت جو ہار دی ہم نے
تہہ میں رکھی امید ہی ابرک
جب غزل سوگوار دی ہم نے
Be First to Comment