Last updated on November 14, 2019
کسی نے کیا وجود پہ جھیلی ہوئی ہے رات
مرے تمام کرب سے کھیلی ہوئی ہے رات
اماوس میں چاند دور کہیں پہ چھپ گیا
اس پل پھر آسماں کی سہیلی ہوئی ہے رات
دن کے اجالے میں چھپ ہی نہیں سکیں
ایسے گناہ سمیٹ پہیلی ہوئی ہے رات
دیوار شب کے پار لمس کی عنایتیں
مانند گلاب عطر وچنبیلی ہوئی ہے رات
دن بھر وصل کی آہٹیں دل کو سنائی دیں
غم ہجر میں کسی نے دھکیلی ہوئی ہے رات
ثروت
Be First to Comment