وقت کی عُمر کیا بڑی ہوگی
اک تیرے وصل کی گھڑی ہوگی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہوگی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی ایک پنکھڑی ہوگی
زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہوگی
اے عدم کے مسافرو! ھوشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہوگی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اَڑی ہوگی
اِلتجا کا مَلال کیا کیجیۓ..؟
اُن کے در پر کہیں پڑی ہوگی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
Be First to Comment