فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
شجر لگانے پہ دریا نے ایک بات کہی
تمھی تو ہو جو کنارے کا دکھ سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دیے ، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے؟
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو؟
Be First to Comment