عشق کے کشف و کرامات کی پابند نہیں
میری مرضی ، میں کسی بات کی پابند نہیں
اپنے ہاتھوں کے اشاروں پہ چلاتی ہے ہمیں
زندگی حکم و ہدایات کی پابند نہیں
جن میں انسان کو کھا جائے فقط نام و نمود
ایسی فرسودہ روایات کی پابند نہیں
تیرے کہنے پہ چلی آؤں ، یہ امید نہ رکھ
میں ترے شوقِ ملاقات کی پابند نہیں
حبس بڑھتا ہے تو پھر رنگ سخن دیکھا کر
شاعری موسمِ برسات کی پابند نہیں
چھلنے لگتے ہیں مرے زخم سحر دم کومل
اب وہ وحشت ہے کہ جو رات کی پابند نہیں
کومل جوئیہ
Be First to Comment