زنجیریں جب ٹوٹیں گی جھنکا ر تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
پھیلے ہوئے اس دھرتی پر ہیں لوگ جہاں تک
پہنچے گی زنجیروں کی جھنکار وہاں تک
دُنیا جاگی تو کوئی محکوم نہ ہوگا
کوئی وطن آزادی سے محروم نہ ہوگا
چکنا چور غلامی کی دیوار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
دُنیا بھر کے انسانوں کا یہی ہے کہنا
سب کا حق ہے امن اور چین سے زندہ رہنا
پاس نہ آنے دو نفرت کے طوفانوں کو
پیار کی آج ضرورت ہے سب انسانوں کو
پیار کی مٹی سے پیدا مہکار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
امن کے بادل اک دن ہر سو چھائے ملیں گے
دھوپ کے بدلے ٹھنڈے ٹھنڈے سائے ملیں گے
پورب پچھم ہوگی آزادی کی رِم جھم
روکے گی جو قوم اسے کہلائے گی مجرم
پت جھڑ میں بھی یہ دھرتی گلزار تو ہوگی
صدیوں کی سوئی دُنیا بیدار تو ہوگی
Be First to Comment