رات کی بھیگی پلکوں پر جب اشک ہمارے ہنستے ہیں
سناٹوں کے سانپ دلوں کی تنہائی کو ڈستے ہیں
کل تک مے خانے میں جن کے نام کا سکہ چلتا تھا
قطرہ قطرہ مے کی خاطر آج وہ لوگ ترستے ہیں
اے میرے مجروح تبسّم! روپ نگر کی ریت نہ پوچھ
جن کے سینوں میں پتھر ہیں ان پر پھول برستے ہیں
شہرِ ہوس کے سودائی خود جن کی روحیں ننگی ہیں
میرے تن کی عریانی پر آوازے کیوں کستے ہیں
چھین سکے گا کون صبا سے لمس ہماری سانسوں کا
ہم پھولوں کی خوشبو بن کر گلزاروں میں بستے ہیں
اشکوں کی قیمت کیا جانیں پیار کے جھوٹے سوداگر
ان سیال نگینوں سے تو ہیرے موتی سستے ہیں
کون آئے گا ننگے پیروں شمع جلا کر شام ڈھلے
پریم!! محبت کی منزل کے بڑے بھیانک رستے ہیں
Be First to Comment