Skip to content

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے

اِک پشیماں سی حسرت سے سوچتا ہے مجھے
اب وہی شـــہرِ مــحبت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اُس سے
پھر بھی وہ کتنی وضــاحت سے سوچتا ہے مجھے

جــــس نے ســـوچــا ہی نہ تھا ہجر کا مُــمکن ہونا
دُکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے سوچتا ہے مجھے

میں تو مر جاؤں اگر سوچنے لگ جاؤں اُسے
اور وہ کتنی سُـہولت سے سوچتا ہے مجھے

گــرچــہ اب تـرکِ مــراسـم کو بــہت دیــر ہوئی
اب بھی وہ میری اجازت سے سوچتا ہے مجھے

کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کہ ہر موسم میں
اِک نئے رُخ، نئی صــورت سے سوچتا ہے مجھے

Published inGazals

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: