Skip to content

اول اول کی دوستی ہے ابھی

اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی

احمد فراز

Published inGazalsSad Poetry

Be First to Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

%d bloggers like this: