اس واسطے لہجے مرے تلوار ہوئے ہیں
چاہت کے سبھی وار جو بیکار ہوئے ہیں
ہر شام امڈ آتی ہے ان آنکھوں میں جو لالی
سب خواب ترے پیار میں مے خوار ہوئے ہیں
جو لوگ خدا تھے کبھی اپنی ہی زمیں کے
وہ آج مرے قدموں سے ہموار ہوئے ہیں
دل جن کا دھڑکتا تھا کبھی یوں نہ اکیلے
اب ذات سے میری وہی بے زار ہوئے ہیں
ہم وجد کے بانی تھے مگر بن کے یوں گھنگھرو
اب یار ترے قدموں کی جھنکار ہوئے ہیں
دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے یہاں اب
سب اپنے پیادے ہی یوں غدار ہوئے ہیں
دستور عجب ہے مری بستی کا اے لوگو
وہ لوگ جو قاتل تھے سردار ہوئے ہیں
Be First to Comment