ازل سے ایک ہجر کا اسیر ہے،اخیر ہے
یہ دل بھی کیا لکیر کا فقیر ہے،اخیر ہے
ہمارے ساتھ حادثہ بھی دفعتا” نہیں ہوا
جو ہاتھ میں نصیب کی لکیر ہے،اخیر ہے
ہمارے قتل پر ہمیں ہی دوش دے رہے ہیں آپ
جناب من جو آپ کا ضمیر ہے،اخیر ہے
اسی طرف بھڑک رہی ہے آگ زور شور سے
اسی طرف ہی روشنی کثیر ہے، اخیر ہے
اسی لیے اسیر ہوں میں سر زمینِ جھنگ کا
سنا ہے میں نے جھنگ کی جو ہیر ہے،اخیر ہے
ہرا رہے گا عمر بھر جو زخم آپ سے ملا
جناب کی کمان میں جو تیر ہے،اخیر ہے
بہار نے کیا بھی تو خزاؤں کا بھلا کیا
یہ زندگی بھی موت کی سفیر ہے،اخیر ہے
چھڑی ہے میر کی غزل سجی ہے بزمِ مے کشاں
بنا ہوا ہے جو سماں اخیر ہے،اخیر ہے
قریب ہے دلِ حزیں پہ شعر کا نزول ہو
کہ رو برو جو حسنِ دلپذیر ہے،اخیر ہے
Be First to Comment