اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا
کیا جانے گریباں ہو گا کہاں دامن سے بڑا دیوانے کا
واعظ نہ سنے گا ساقی کی لالچ ہے اسے پیمانے کی
مجھ سے ہوں اگر ایسی باتیں میں نام نہ لوں میخانے کا
کیا جانے کہے گا کیا آ کر ہے دور یہاں پیمانے کا
اللہ کرے واعظ کو کبھی رستہ نہ ملے میخانے کا
تربت سے لگا کر تا محشر سنتے ہیں کہ ملتا کوئی نہیں
منزل ہے بڑی آبادی کی رستہ ہے بڑا ویرانے کا
جنت میں پئے گا تو کیوں کر اے شیخ یہاں گر مشق نہ کی
اب مانے نہ مانے تیری خوشی ہے کام مرا سمجھانے کا
جی چاہا جہاں پر روک دیا پاؤں میں چبھے اور ٹوٹ گئے
خاروں نے بھی دل میں سوچ لیا ہے کون یہاں دیوانے کا
ہیں تنگ تیرے میکش ساقی یہ پڑھ کے نماز آتا ہے یہاں
یا شیخ کی توبہ تڑوا دے یا وقت بدل میخانے کا
ہر صبح کو آہِ سرد سے دل شاداب جراحت رہتا ہے
گر یوں ہی رہے گی بادِ سحر یہ پھول نہیں مرجھانے کا
بہکے ہوئے واعظ سے مل کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو مے خوارو
گر توڑ دیا سب جام و سبو کیا کر لو گے دیوانے کا
احباب یہ تم کہتے ہو بجا وہ بزمِ عدو میں بیٹھے ہیں
وہ آئیں نہ آئیں ان کی خوشی چرچا تو کرو مر جانے کا
اس وقت کھلے گا جس کو بھی احساسِ محبت ہے کہ نہیں
جب شمع سرِ محفل رو کر منہ دیکھے گی پروانے کا
بادل کے اندھیرے میں چھپ کر میخانے میں آ بیٹھا ہے
گر چاندنی ہو جائے گی قمر یہ شیخ نہیں پھر جانے کا
قمر جلالوی
Be First to Comment