Skip to content

Tag: Tehzeeb Hafi

Tehzeeb Hafi

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا

پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا

اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا

فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا

میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا

تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا

میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا

Leave a Comment

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا

یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں
جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا

اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا

اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں
چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا

اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے
اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

بات دریاؤں کی سورج کی نہ تیری ہے یہاں
دو قدم جو بھی مرے ساتھ چلا بیٹھ گیا

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص
جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا

Leave a Comment

یہ عشق محبت تمھارے بس کا نھیں رہنے دو

یہ عشق محبت تمھارے بس کا نھیں رہنے دو
ہجر تو بہت دور تم بخار تک سہ نہیں سکتے

ہمارا ایک ہونا قدرت کی خلاف ورزی تھی
ویسے بھی دریا جھیل میں بہہ نہیں سکتے
تہذیب حافی

Leave a Comment

میں نے کب کہا کے وہ مرے حق میں فیصلہ کرے

میں نے کب کہا کے وہ مرے حق میں فیصلہ کرے
اگر وہ مجھ سے خوش نہیں ہے تو مجھے جدا کرے
میں اس کے ساتھ جس طرح گزارتا ھوں زندگی
اسے تو چائیے کے میرا شکریہ ادا کرے
تہذیب حافی

Leave a Comment

‏اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے

‏اک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے

ایک سایہ مرے تعاقب میں
ایک آواز ڈھونڈتی ہے مجھے

میں سخن میں ہوں اس جگہ کہ جہاں
سانس لینا بھی شاعری ہے مجھے

میں اسے کب کا بھول بھال چکا
زندگی ہے کہ رو رہی ہے مجھے

تہذیب حافی

Leave a Comment

تارِیکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے

تارِیکیوں کو آگ لگے اور دِیا جلے
یہ رات بَین کرتی رہے اور دِیا جلے

اُس کی زباں میں اِتنا اثر ہے، کہ نصفِ شب
وہ روشنی کی بات کرے، اور دِیا جلے

تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہُوں
یعنی ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا جلے

کیا مجھ سے بھی عزیز ہے تم کو دیے کی لو
پھر تو مِرا مزار بنے اور دِیا جلے

سورج تو میری آنکھ سے آگے کی چیز ہے
میں چاہتا ہُوں، شام ڈھلے اور دِیا جلے

تم لوٹنے میں دیر نہ کرنا، کہ یہ نہ ہو !
دِل تِیرَگی میں ڈوب چُکے اور دِیا جلے

تہذیب حافی

Leave a Comment

‏کسے خبر ہے کہ عمر بس

‏کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے

میں اس کو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسئلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے

تہذیب حافی

Leave a Comment
%d bloggers like this: