Skip to content

Tag: Rahat Indori

Rahat Indori

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے
تیری ہر بات پہ آمین کہا ہے میں نے

تیری دستار پہ تنقید کی ہمت تو نہیں
اپنی پاپوش کو قالین کہا ہے میں نے

مصلحت کہیے اسے یا کہ سیاست کہیے
چیل کوؤں کو بھی شاہین کہا ہے میں نے

ذائقے بارہا آنکھوں میں مزا دیتے ہیں
بعض چہروں کو بھی نمکین کہا ہے میں نے

تو نے فن کی نہیں شجرے کی حمایت کی ہے
تیرے اعزاز کو توہین کہا ہے میں نے

راحت اندوری

Leave a Comment

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے

اندر کا زہر چوم لیا دھل کے آ گئے
کتنے شریف لوگ تھے سب کھل کے آ گئے

سورج سے جنگ جیتنے نکلے تھے بے وقوف
سارے سپاہی موم کے تھے گھل کے آ گئے

مسجد میں دور دور کوئی دوسرا نہ تھا
ہم آج اپنے آپ سے مل جل کے آ گئے

نیندوں سے جنگ ہوتی رہے گی تمام عمر
آنکھوں میں بند خواب اگر کھل کے آ گئے

سورج نے اپنی شکل بھی دیکھی تھی پہلی بار
آئینے کو مزے بھی تقابل کے آ گئے

انجانے سائے پھرنے لگے ہیں ادھر ادھر
موسم ہمارے شہر میں کابل کے آ گئے

راحت اندوری

Leave a Comment

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے

آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے

ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے

آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے

میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے

منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے

راحت اندوری

Leave a Comment

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے​

راحت اندوری

Leave a Comment

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے

رات کی دھڑکن جب تک جاری رہتی ہے
سوتے نہیں ہم ذمہ داری رہتی ہے

.
جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں
یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے

.
پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں
ہاتھ پسارے جب خودداری رہتی ہے

.
وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچے ہیں
جن لوگوں کے پاس سواری رہتی ہے

.
چھت سے اس کی دھوپ کے نیزے آتے ہیں
جب آنگن میں چھاؤں ہماری رہتی ہے

.
گھر کے باہر ڈھونڈھتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا داری رہتی ہے

راحت اندوری

Leave a Comment

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے

رشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے.
راحت اندوری

Leave a Comment
%d bloggers like this: