Skip to content

Tag: Qateel Shifai

Qateel Shifai

جب تصوّر میرا چُپکے سے تجھے چُھو آئے

جب تصوّر میرا چُپکے سے تجھے چُھو آئے
‏اپنی ھر سانس سے مجھ کو تیری خوشبو آئے

‏پیار نے ھم میں کوئی فرق نہ چھوڑا باقی
‏جھیل میں عکس تو میرا ھو نظر تُو آئے

‏⁧‫قتیل شفائی‬⁩

Leave a Comment

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کے لئے
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چرا لیتے ہیں لوگ

خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی
ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ

ہے بجا ان کی شکائت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ

ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں
غم چھپانے کے لئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ

اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے
روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ

یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ

روشنی ہے ان کا ایماں روک مت ان کو قتیل
دل جلاتے ہیں یہ اپنا تیرا کیا لیتے ہیں لوگ۔

قتیل شفائی

Leave a Comment

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں

نہ کوئی خواب ہمارے ہیں نہ تعبیریں ہیں
ہم تو پانی پہ بنائی ہوئی تصویریں ہیں

کیا خبر کب کسی انسان پہ چھت آن گرے
قریۂ سنگ ہے اور کانچ کی تعمیریں ہیں

لُٹ گئے مفت میں دونوں، تری دولت مرا دل
اے سخی! تیری مری ایک سی تقدیریں ہیں

کوئی افواہ گلا کاٹ نہ ڈالے اپنا
یہ زبانیں ہیں کہ چلتی ہوئی شمشیریں ہیں

اب کے عشاق کی یہ زندہ دلی بھی دیکھو
ہجر کے دن ہیں مگر وصل کی تدبیریں ہیں

ہم جو ناخواندہ نہیں ہیں تو چلو آؤ پڑھیں
وہ جو دیوار پہ لکھی ہوئی تحریریں ہیں

ہو نہ ہو یہ کوئی سچ بولنے والا ہے قتیلؔ
جس کے ہاتھوں میں قلم پاؤں میں زنجیریں ہیں

قتیل شفائی

Leave a Comment

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے

محبت میں غلط فہمی اگر الزام تک پہنچے
کسے معلوم کس کا نام کس کے نام تک پہنچے

تیری آنکھوں کے ٹھکرائے ہوئے وہ لوگ تھے شاید
جو اِک شرمندگی ہونٹوں پہ لے کر جام تک پہنچے

سبھی رستوں پہ تھے شعلہ فشاں حالات کے سورج
بہت مشکل سے ہم ان گیسوؤں کی شام تک پہنچے

کسی نے بھی نہ اپنی دھڑکنوں میں دی جگہ جن کو
وہ سارے ولولے میرے دلِ نا کام تک پہنچے

سجا کر آئیں جب سونے کا چشمہ اپنی آنکھوں پر
نظر ہم مفلسوں کی تب کہاں اس بام تک پہنچے

قتیلؔ آئینہ بن جاؤ زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری اِلہام تک پہنچے

Leave a Comment

غمِ ہجر سے نہ دل کو کبھی ہمکنار کرنا

غمِ ہجر سے نہ دل کو کبھی ہمکنار کرنا
میں پِھر آؤں گا پلٹ کر میرا انتظار کرنا

مجھے ڈر ہے میرے آنسو تِری آنکھ سے نہ چھلکیں
ذرا سوچ کر سمجھ کر مجھے سوگوار کرنا

اُسے ڈھوُنڈ سب سے پہلے جو مِلا نہیں ہے تُجھ کو
یہ ستارے آسماں کے کبھی پھر شمار کرنا

مرے شہر کی فضا میں کوئی زہر بھر گیا ہے
ترے حسن پر ہے لازم اُسے خوشگوار کرنا

میں اُٹھاؤں گا نہ احساں تِرے بعد ناخدا کا
مجھے توُ نے ہی ڈبویا، مجھے توُ ہی پار کرنا

یہی رہ گیا مداوا مِری بدگمانیوں کا
تِرا مُسکرا کے مِلنا، مِرا اعتبار کرنا

مرے بدنصیب واعظ تری زندگی ہی کیا ہے
نہ کسی سے دل لگانا نہ کسی سے پیار کرنا

کبھی اقتدار بخشے جو خدا قتیلؔ تجھ کو
جو روش ہے قاتلوں کی وہ نہ اختیار کرنا

قتیل شفائی

Leave a Comment

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں

بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں

خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں

ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

Leave a Comment

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام

یوں آرہا ہے آج لبوں پر کسی کا نام
ہم پڑھ رہے ہوں جیسے چُھپا کر کسی کا نام

سُنسان یُوں تو کب سے ہے کُہسارِ باز دِید
کانوں میں گوُنجتا ہے برابر کسی کا نام

دی ہم نے اپنی جان تو قاتِل بنا کوئی
مشہُور اپنے دَم سے ہے گھر گھر کسی کا نام

ڈرتے ہیں اُن میں بھی نہ ہو اپنا رقیب کوئی
لیتے ہیں دوستوں سے چُھپا کر کسی کا نام

اپنی زبان تو بند ہے، تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یونہی سِتمگر کسی کا نام

ماتم سَرا بھی ہوتے ہیں کیا خود غَرَض قتیل
اپنے غموں پہ روتے ہیں لے کر کسی کا نام

قتیل شفائی

Leave a Comment
%d bloggers like this: