Skip to content

Tag: Mohsin Naqvi

Mohsin Naqvi

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا؟

وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا؟

ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مجھے خود سے آشنا کرتا

غمِ جہاں کی محبت لُبھا رہی تھی مجھے
مَیں کس طرح تیری چاہت پہ آسرا کرتا؟

اگر زبان نہ کٹتی تو شہر میں “محسن”
مَیں پتھروں کو بھی اِک روز ہمنوا کرتا
محسن نقوی

Leave a Comment

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی

طے کر نہ سکا زیست کے زخموں کا سفر بھی
حالانکہ مِرا دِل تھا شگوفہ بھی شرر بھی

اُترا نہ گریباں میں مقدر کا ستارا
ہم لوگ لٹاتے رہے اشکوں کے گہر بھی

حق بات پہ کٹتی ہیں تو کٹنے دو زبانیں
جی لیں گے مِرے یار باندازِ دگر بھی

حیراں نہ ہو آئینہ کی تابندہ فضا پر
آ دیکھ ذرا زخمِ کفِ آئینہ گر بھی

سوکھے ہوئے پتوں کو اُڑانے کی ہوس میں
آندھی نے گِرائے کئی سر سبز شجر بھی

وہ آگ جو پھیلی میرے دامن کو جلا کر
اُس آگ نے پھونکا میرے احباب کا گھر بھی

محسنؔ یونہی بدنام ہوا شام کا ملبوس
حالانکہ لہو رنگ تھا دامانِ سحر بھی

Leave a Comment

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے

نہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر

ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر

مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر

کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر

یہ ہجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر

یہ جلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر

محسن نقوی

Leave a Comment

بہار رُت میں اجاڑ رستے

بہار رُت میں اجاڑ رستے تکا کرو گے تو رو پڑو گے
کسی سے ملنے کو جب بھی محسن سجا کرو گے تو رو پڑو گے

تمہارے وعدوں نے یار مجھ کو تباہ کیا ہے کچھ اس طرح سے
کہ زندگی میں جو پھر کسی سے دغا کرو گے تو رو پڑو گے

میں جانتا ہوں میری محبت اجاڑ دے گی تمہیں بھی ایسے
کہ چاند راتوں میں اب کسی سے ملا کرو گے تو رو پڑو گے

برستی بارش میں یاد رکھنا تمہیں ستائیں گی میری آنکھیں
کسی ولی کے مزار پر جب دعا کرو گے تو رو پڑو گے

محسن نقوی

Leave a Comment

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟

میں کہاں تیری داستاں سے الگ؟
کچھ نہیں ُدھول، کارواں سے الگ!
چاند کتنا عزیز تھا ُاس کو__!
رات ٹھہری میرے مکاں سے الگ

فصلِ ُگل میں بھی پھول ُمرجھائے
اک خزاں اور ہے خزاں سے الگ
میرے قاتل نظر نہ آ مجھ کو،
برق رہتی ہے آشیاں سے الگ

سر کو سودائے سنگ ہے لیکن
سنگ ہو تیرے آستاں سے الگ؟
دو جہاں چھوڑ کر ِملو ُاس سے
وہ کہ رہتا ہے دو جہاں سے الگ

آؤ آپس میں فیصلہ کر لیں
کس کو ہونا ہے اب کہاں سے الگ؟
دل میں ُاترا تھا جو کبھی محسنؔ
وہ ستارا تھا آسماں سے الگ _!

“محسن نقوی”

Leave a Comment

اداس لوگو

کوئ نئ چوٹ پھر سے کھاؤ، اداس لوگو
کہا تھا کس نے کہ مسکراؤ، اُداس لوگو

جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی، سناؤ اُداس لوگو

کہاں تلک بام و در چراغاں کئیے رکھوگے؟
بچھڑنے والوں کو بھول جاؤ اُداس لوگو

گزر رہی ہیں گلی سے پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو، دئیے بجھاؤ، اُداس لوگو

اُداس جنگل، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ اُداس لوگو

یہ کس نے سہمی ہوئ فضا میں ہمیں پکارا؟
یہ کس نے آواز دی کہ آؤ اُداس لوگو

اُسی کی باتوں سے طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ اُداس لوگو

محسن نقوی

Leave a Comment
%d bloggers like this: