Skip to content

Tag: Jaun Elia

Jaun Elia

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا

کبھی جب مدتوں کے بعد اُس کا سامنا ہو گا
سوائے پاس آدابِ تکلّف اور کیا ہو گا؟
یہاں وہ کون ہے جو انتخاب غم پہ قادر ہے
جو مل جائے وہی غم دوستوں کا مدعا ہو گا
نوید سر خوشی جب آئے گی اس وقت تک شاید
ہمیں زہرِ غم ہستی گوارا ہو چکا ہو گا
صلیبِ وقت پر میں نے پُکارا تھا محبت کو
میری آواز جس نے بھی سُنی ہو گی، ہنسا ہو گا
ابھی اِک شورِ ہائے و ہو سنا ہے ساربانوں نے
وہ پاگل قافلے کے ضِد میں پیچھے رہ گیا ہو گا
ہمارے شوق کے آسودہ و خُوشحال ہونے تک
تمھارے عارض و گیسُو کا سودا ہو چکا ہو گا
نوائیں، نکہتیں، آسودہ چہرے، دلنشیں رشتے
مگر اک شخص اس ماحول میں کیا سوچتا ہو گا
ہنسی آتی ہے مجھ کو مصلحت کے ان تقاضوں پر
کہ اب ایک اجنبی بن کر اُسے پہچاننا ہو گا
دلیلوں سے دوا کا کام لینا سخت مُشکل ہے
مگر اس غم کی خاطر یہ ہُنر بھی سیکھنا ہو گا
وہ منکر ہے تو پھر شاید ہر اک مکتوب شوق اس نے
سر انگشتِ حنائی سے خلاؤں میں لکھا ہو گا
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہو گا
صبا! شکوہ ہے مجھ کو ان دریچوں سے ، دریچوں سے؟
دریچوں میں تو دیمک کے سوا اب اور کیا ہوگا
جون ایلیا

Leave a Comment

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں

غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں

جون ایلیا

Leave a Comment

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

Leave a Comment

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار

تمہارے نام، تمہارے نشاں سے بےسروکار
تمہاری یاد کے موسم گُزرتے جاتے ہیں
بس ایک منظرِ بےہجر و وصل ہے، جس میں
ہم اپنے آپ ہی کچھ رنگ بھرتے جاتے ہیں

نہ وہ نشاطِ تصوّر کہ لو تم آ ہی گئے
نہ زخمِ دل کی ہے سوزش کوئی، جو سہنی ہو
نہ کوئی وعدہ و پیماں کی شام ہے، نہ سحر
نہ شوق کی ہے کوئی داستاں، جو کہنی ہو

نہیں جو محمل لیلائے آرزو سرِ راہ
تو اب فضا میں فضا کے سِوا کچھ اور نہیں
نہیں جو موجِ صبا میں کوئی شمیمِ پیام
تو اب صبا میں صبا کے سِوا کچھ اور نہیں

اُتار دے جو کنارے پہ ہم کو کَشتیٔ‌‌ وہم
تو گَرد و پَیش کو گرداب ہی سمجھتے ہیں
تمہارے رنگ مہکتے ہیں خواب میں جب بھی
تو خواب میں بھی انہیں خواب ہی سمجھتے ہیں

نہ کوئی زخم، نہ مرہم کہ زندگی اپنی
گُزر رہی ہے ہر احساس کو گنوانے میں
مگر یہ زخم، یہ مرہم بھی کم نہیں شاید
کہ ہم ہیں ایک زمیں پر اور اِک زمانے میں

۔جون ایلیاء

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کریں گی آپ ؟
رُوٹھے گا کون ، کس کو منایا کریں گی آپ ؟

وہ جا رھا ھے صُبحِ مُحبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کریں گی آپ

اب کون “خود پرست” ستائے گا آپکو ؟؟
کِس بے وفا کے ناز اُٹھایا کریں گی آپ ؟

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مِٹا مِٹا کے بنایا کریں گی آپ

گمنام الجھنوں میں گُزاریں گی رات دن
بیکار اپنے جی کو جلایا کریں گی آپ

اب لذتِ سماعتِ رھرو کے واسطے
اُونچے سُروں میں گیت نہ گایا کریں گی آپ

ھمجولیوں کو اپنی بسوزِ تصورات
ماضی کے واقعات سُنایا کریں گی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون ، کِس کو ڈرایا کریں گی آپ ؟

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئیگا
مِلنے سہیلیوں سے نہ جایا کریں گی آپ

غصے میں نوکروں سے بھی الجھیں گی بار بار
معمولی بات کو بھی بڑھایا کریں گی آپ

پھر اسکے بعد ایک وہ منزل بھی آئیگی
دِل سے مرا خیال ھٹایا کریں گی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ھجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو لگایا کریں گی آپ

آئے گا پھر وہ دِن بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ھی نہ پایا کریں گی آپ

“نقشِ کُہن” کو دل سے مِٹانا ھی چاھئیے
گزرے ھُوئے دِنوں کو بھُلانا ھی چاھئیے

Leave a Comment

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں

سرِ صحرا حباب بیچے ہیں
لبِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کر کےمیں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زلف کوچوں میں شانہ کش نے تیرے
کتنے ہی پیچ و تاب بیچے ہیں

شہر میں ہم خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں

جانِ من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں

جون ایلیا

Leave a Comment

ﻣِﻨﺘﯿﮟ ﮬﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ

ﻣِﻨﺘﯿﮟ ﮬﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﯿﺮﮮ
ﺧُﻮﺏ ﮔﺰﺭﯼ ﺗﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍِﮎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﺮﺩﯼ
ﺗﯿﺮﮮ ﻧﺎﺩﯾﺪﮦ ﺧﺪﻭﺧﺎﻝ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺟﻮﻥ ﺍﯾﻠﯿﺎ

Leave a Comment

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کرینگی آپ

شانوں پہ کس کے اشک بہایا کرینگی آپ
روٹھے گا کون ، کس کو منایا کرینگی آپ

وہ جارہا ہے صبحِ محبت کا کارواں
اب شام کو کہیں بھی نہ جایا کرینگی آپ

اب کون خود پرست ستائے گا آپ کو
کس بے وفا کے ناز اٹھایا کرینگی آپ

پہروں شبِ فراق میں تاروں کو دیکھ کر
شکلیں مٹا مٹا کے بنایا کرینگی آپ

گمنام اجالوں میں گزاریں گی رات دن
بے کار اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ

ہمجولیوں کو اپنے باسوز تصورات
ماضی کے واقعات سنایا کرینگی آپ

اب وہ شرارتوں کے زمانے گزر گئے
چونکے گا کون،کس کو ڈرایا کرینگی آپ

فرقت میں دورِ گوشہ نشینی بھی آئے گا
ملنے سہیلیوں سے نہ جایا کرینگی آپ

پھر اسکے بعد وہ منزل بھی آئے گی
دل سے مرا خیال مٹایا کرینگی آپ

حالاتِ نو بہ نو کے مسلسل ہجوم میں
کوشش سے اپنے جی کو جلایا کرینگی آپ

آئے گا پھر وہ دور بھی تغیر کے دور میں
دل میں کوئی خلش ہی نہ پایا کرینگی آپ

جون ایلیاء

Leave a Comment
%d bloggers like this: