Skip to content

Tag: Jaun Elia

Jaun Elia

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے

مَستئ حال کبھی تھی کہ نہ تھی ، بُھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رھی ، بُھول گئے

حَرمِ ناز و اَدا ، تُجھ سے بچھڑنے والے
بُت گَری بُھول گئے ، بُت شِکنی بُھول گئے

کُوچہء کَج کَلہاں ! تیرے وہ ھجرت زَدگاں
خوُد سَری بُھول گئے ، خوُد نگری بُھول گئے

یُوں مُجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب
کیا میرے دوست ، میری سادہ دِلی بُھول گئے؟؟

میں تو بے حِس ھُوں، مُجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں رَوِشِ چارہ گَری بُھول گئے؟؟

مُجھے تاکیدِ شکیبائی کا بھیجا جو پیام
آپ شاید میری شوریدہ سَری بُھول گئے

اب میرے اَشکِ مُحبّت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ھی دامن کی نمی بُھول گئے

اب کوئی مُجھ کو دِلائے نہ مُحبّت کا یقیں
جو مُجھے بُھول نہ سکتے تھے ، وھی بُھول گئے

اور کیا چاھتی ھے گردشِ ایّام کہ ھم ؟؟
اپنا گھر بُھول گئے ، اُس کی گَلی بُھول گئے

کیا کہیں کِتنی ھی باتیں تھیں ، جو اب یاد نہیں
کیا کریں ھم سے بڑی بُھول ھُوئی، بُھول گئے

“جون ایلیاء”

Leave a Comment

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا، اخلاص، قربانی،مرو ّت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

سنا دیں عصمتِ مریم کا قصّہ؟
پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم

زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے
بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کری ہم

ہماری ہی تمنّا کیوں کرو تم
تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لحموں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

اُٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم

جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم

نہیں دُنیا کو جب پرواہ ہماری
تو پھر دُنیا کی پرواہ کیوں کریں ہم

برہنہ ہیں سرِبازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردا کیوں کریں ہم

ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھی بھروسہ کیوں کریں ہم

پڑی رہنے دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم

Leave a Comment

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے

کتنے عیش سے رہتے ہوں گے کتنے اتراتے ہوں گے
جانے کیسے لوگ وہ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے

شام ہوئے خوش باش یہاں کے میرے پاس آ جاتے ہیں
میرے بجھنے کا نظارہ کرنے آ جاتے ہوں گے

وہ جو نہ آنے والا ہے نا اس سے مجھ کو مطلب تھا
آنے والوں سے کیا مطلب آتے ہیں آتے ہوں گے

اس کی یاد کی باد صبا میں اور تو کیا ہوتا ہوگا
یوں ہی میرے بال ہیں بکھرے اور بکھر جاتے ہوں گے

یارو کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کا
وہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں وہ تو مر جاتے ہوں گے

میرا سانس اکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے

جون ایلیا

Leave a Comment
%d bloggers like this: