آپ اے حضرتِ ناصح کوئی تدبیر کریں
آپ سا کوئی مِرا مُشفق و محسن ہی نہیں
کس کو اے داغؔ سنائیں غزل اپنی کہہ کر
میر و مرزا ہی نہیں غالب و مومن ہی نہیں
Daagh Dehlvi
آپ اے حضرتِ ناصح کوئی تدبیر کریں
آپ سا کوئی مِرا مُشفق و محسن ہی نہیں
کس کو اے داغؔ سنائیں غزل اپنی کہہ کر
میر و مرزا ہی نہیں غالب و مومن ہی نہیں
بے داد و جور و لطف و ترحم سے کیا غرض
تم کو غرض نہیں، تو ہمیں تم سے کیا غرض
کیوں ہم شبِ فراق میں تارے گنا کریں
ہم کو شمارِ اختر و انجم سے کیا غرض
کوئی ہنسا کرے، تو بلا سے ہنسا کرے
کیوں دل جلائیں، برقِ تبسم سے کیا غرض
لیتے ہیں جاں نثار کوئی منتِ مسیح
جو ہو شہیدِ عشق اسے قم سے کیا غرض
جو خاکسارِ عشق ہیں ملتے ہیں خاک میں
اہل زمیں کو چرخِ چہارم سے کیا غرض
دل طرزِ انجمن ہی سے بیزار ہوگیا
مطلب ہمیں شراب سے کیا، خم سے کیا غرض
کیوں بزمِ عیش چھوڑ کے بزمِ عزا میں آئیں
ان کو ہمارے پھولوں سے، چہلم سے کیا غرض
روزِ ازل سے پاک ہیں رندانِ بے ریا
ان کو وضو سے اور تیمم سے کیا غرض
شیدائیوں کو عزتِ دنیا سے ننگ ہے
دیوانے کو ملامتِ مردم سے کیا غرض
معشوق سے امیدِ کرم؟ داغؔ خیر ہے
اس بندۂ خدا کو ترحم سے کیا غرض
داغؔ دہلوی
Leave a Commentنار نمرود کو کیا گلزار
دوست کو یوں بچا لیا تو نے
داغ کو کون دینے والا تھا
جو دیا اے خدا دیا تو نے
داغ دہلوی
Leave a Commentغیر کے نام سے پیغامِ وصال اچھا ہے
چھیڑ کا جس میں مزا ہو وہ سوال اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں محبّت کا مآل اچھا ہے
کبھی کہتا ہوں جو اب ہے وہی حال اچھا ہے
یہ بھی کہتے ہو کہ بے چین کیا کس نے تجھے
یہ بھی کہتے ہو مرا حسن و جمال اچھا ہے
دل تو ہم دیں گے مگر پیشتر اتنا کہہ دو
ہجر اچھا ہے تمہارا کہ وصال اچھا ہے
یہ تو بہتر ہے کہ دنیا میں ہو عقبیٰ کا خیال
کچھ تو عقبیٰ میں دنیا کا مال اچھا ہے
یہی دولت کا مزا ہے کے اڑیں گل چھرے
ہاتھ آتے ہی جو اڑ جائے وہ مال اچھا ہے
صلح دشمن سے بھی کر لیں گے تری خاطر سے
جس طرح سے ہو غرض رفعِ ملال اچھا ہے
اک دکاں میں ابھی رکھ آئے ہیں ہم اپنا دل
دور سے سب کو بتاتے ہیں وہ مال اچھا ہے
کیا وہ غارت گر دیں حشر سے اڑ جائے گا
ہر مسلماں کا سنتے ہیں مآل اچھا ہے
روزِ بد سے نہیں تا عمر محبّت میں نجات
موت سے سال میں آئے وہی سال اچھا ہے
اپنی تعریف سے چڑھتے ہو اگر جانے دو
چشمِ بد دور ہمارا ہی جمال اچھا ہے
لوگ کہتے ہیں بھلائی کا زمانہ نہ رہا
یہ بھی کہہ دیں کہ برائی کا مآل اچھا ہے
رقمِ شوق کی تاثیر اڑنا بہتر
طائرِ نامہ رسا بے پر و بال اچھا ہے
ایسے بیمار کی افسوس دوا ہو کیونکر
ابھی دم بھر میں برا ہے ابھی حال اچھا ہے
دیکھنے والوں کی حالت نہیں دیکھی جاتی
جو نہ دیکھے وہی مشتاقِ جمال اچھا ہے
یا دکھا دو مجھے تم پاؤں کا ناخن اپنا
یا یہ کہہ دو مرے ناخن سے ہلال اچھا ہے
تم نہیں اور سہی دل کے طلب گار بہت
سو خریدار ہیں موجود جو مال اچھا ہے
دل میں تو خوش ہیں تسلی کو مری کہتے ہیں
آپ مرنے کے نہیں آپ کا حال اچھا ہے
باغِ عالم میں کوئی خاک پھلے پھولے گا
برق گرتی ہے اسی پر جو نہال اچھا ہے
عرصہ حشر میں سب ہو گئے خواہاں اس کے
لوگ کہتے ہیں اشاروں سے یہ مال اچھا ہے
ہم سے پوچھے کوئی دنیا میں ہے کیا شے اچھی
رنج اچھا ہے غم اچھا ہے ملال اچھا ہے
آپ پچھتاہیں نہیں جور سے توبہ نہ کریں
آپ گھبراہیں نہیں داغؔ کا حال اچھا ہے
داغؔ دہلوی
ہم اس جہان سے ارمان لے کے جائیں گے،
خدا کے گھر یہی سامان لے کے جائیں گے
یہ ولولے تو میری جان لے کے جائیں گے
یہ ذوق شوق تو ایمان لے کے جائیں گے
وہ وقت نزع نہ آئیں عدو کے کہنے سے،
ہم اور غیر اک احسان لے کے جائیں گے
بیاں کریں گے ترے ظلم ہم قسم کھا کر
خدا کے سامنے قرآن لے کے جائیں گے
چڑھی نہ تربت مجنوں پہ آج چادر
ہم اپنا چاکِ گریبان لے کے جائیں گے
ہمیں یہ فکر ہے کہ دل سوچ سمجھ کے دیں
اُنہیں یہ ضد اسی آن لے کے جائیں گے
صنم کدے کے ہوےہم نہ مئے کدے کے ہوئے
یہ داغ دل میں مسلمان لے کے جائیں گے
بھرے ہیں کعبہ دل میں حسرت و ارمان
مراد اپنی یہ مہمان لے کے جائیں گے
لگا کے لائیں ہیں غیروں کو آپ اپنے ساتھ
یہاں سے کیا یہ نگہبان لے کے جائیں گے
بغیر وصل کا وعدہ لیے نہ ٹلیں گے ہم
یہ عہد لے کے یہ پیمان لے کے جائیں گے
پھنسا رہے گا دل مبتلا تو دنیا میں
گناہ کس میں پھر انسان لے کے جائیں گے
کچھ آگیا میرے آگےدیا لیا میرا
یقین تھا وہ میری جان لے کے جائیں گے۔
داغ دہلوی