کيا گيا ہے غلامی ميں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خريد لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
Collection Of Your Favorite Poets
Allama Iqbal
کيا گيا ہے غلامی ميں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خريد لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں
خدا مجھے نفَسِ جبرئیل دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں
حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگُوں
عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیِ شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردُوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ‘
علاج آتشِ رومیؔ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اُسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اُسی کے فیض سے میرے سبُو میں ہے جیحوں
دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہيں ہے
پھر اس ميں عجب کيا کہ تو بے باک نہيں ہے
ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک ميں پنہاں
غافل! تو نرا صاحب ادراک نہيں ہے
وہ آنکھ کہ ہے سرم ہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہيں ہے
کيا صوفی و ملا کو خبر ميرے جنوں کی
ان کا سر دامن بھی ابھی چاک نہيں ہے
کب تک رہے محکومی انجم ميں مری خاک
يا ميں نہيں ، يا گردش افلاک نہيں ہے
بجلی ہوں ، نظر کوہ و بياباں پہ ہے مری
ميرے ليے شاياں خس و خاشاک نہيں ہے
عالم ہے فقط مومن جاں باز کی ميراث
مومن نہيں جو صاحب لولاک نہيں ہے
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزمِ کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
ذکرِ عرب کے سوز میں ، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات ، نے عجمی تخیلات
قافلہءِ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂِ تصورات
صدقِ خلیل بھی ہے عشق ، صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہءِ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
آبتاؤں تجھ کو رمزِ آیہء ،ان الملوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقہء گردن میں ساز دلبری
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسی طلسمِ سامری
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری
از غلامی فطرت آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجہ ے از برہمن کافر تری
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
گرمئِ گفتار اعضائے مجالس، الاماں!
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی
نالہ ہے بُلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پُختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی
شیوۂ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زُنّاریِ بُت خانۂ ایّام ابھی
عُذرِ پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوشِ انجام ابھی
سعیِ پیہم ہے ترازُوئے کم و کیفِ حیات
تیری میزاں ہے شمارِ سحَر و شام ابھی
ابرِ نیساں! یہ تنک بخشیِ شبنم کب تک
مرے کُہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردانِ عجَم وہ، عَربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبالؔ کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نَو گرفتار پھڑکتا ہے تہِ دام ابھی
بیداری
جس بندۂِ حق بیں کی خودی ہوگئی بیدار
شمشیر کی مانند ہے برندہ و براق
اس کی نگہِ شوخ پہ ہوتی ہے نمودار
ہر ذرے میں پوشیدہ ہے جو قوتِ اشراق
اس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندۂِ آفاق ہے ، وہ صاحبِ آفاق
تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی
وہ پاکئِ فطرت سے ہوا محرمِ اعماق
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: ضربِ کلیم
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام ، وائے تمنائے خام
پیرِ حرم نے کہا سن کے مری روئداد
پختہ ہے تیری فغاں ، اب نہ اسے دل میں تھام
تھا ارنی گو کلیم ، میں ارنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا ، مجھ پہ تقاضا حرام
گرچہ ہے افشائے راز ، اہل نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂِ رندانہ عام
حلقۂِ صوفی میں ذکر بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام تو بھی رہا تشنہ کام
عشق تری انتہا عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام میں بھی ابھی ناتمام
آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب: بالِ جبریل
(فرانس میں لکھے گئے)
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asraar Banday.
Do Neem in ki Thokar se Sehra-o-Darya
Simat kar Pahar in ki Haibat se Raayee
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Asrar Banday
Do Alam se Karti hai Begaana Dil ko
Ajab Cheez hai Lazzat-e-Ashnayee
Shahadat hai Maqsood-o-Matoob-e-Momin
Na Maal-e-Ghanimat na kishwar kushayee
Kiya Tu ne Sehra Nasheenon ko Yakta
Khabar mai Nazar mai Azaan-e-Sahar mai
Talab jis ki Sadyon se thi Zindagi ko
Woh Soz Us ne paya in hi ke jigar mai
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai
Kushad-e-Dar-Dil samajhtay hain usko
Halakat nahai maut in ki Nazar mai
Dil-e-Mard-e-Momin mai phir Zinda kar dai
Woh Bijli thi ke Nara-e-La Tazar mai
Azaaim ko Seenon mai Bedaar kar dai
Nigah-e-Musalma’n ko Talwar kar dai
Yeh Ghazi Yeh Tere Pur Israar Banday
Jinhain Tu ne Bakhsha hai Zauq-e-Khudai