یہ جو غُربت میں اُداسی کا سَبب ہے، مَت پُوچھ
مُجھ سے چھوٹا بھی مُجھے چار سُنا دیتا ہے
Collection Of Your Favorite Poets
یہ جو غُربت میں اُداسی کا سَبب ہے، مَت پُوچھ
مُجھ سے چھوٹا بھی مُجھے چار سُنا دیتا ہے
قُبول کر میرے چہرے کی جھُریاں جن میں
!.کہیں دھرم، کہیں تہذیب کے طمانچے ہیں
آج پلکوں سے نکل آیا ھے رخساروں پر,
ضبط تھک ہار کے آبائی وطن چھوڑ گیا.
یہاں دھوکا روایت ہے
بنو زاہد پیئے جاؤ
کرو باتیں سبھی اچھی
گناہ بھی سب کیئے جاؤ
اتارو پشت میں خنجر
زخم رو رو سیئے جاو
اگر ہیں حسرتیں باقی
بچی سانسیں لیئے جاؤ
کہاں تم دے سکو گے حق
سو دھوکہ ہی دیئے جاؤ
ملے گی موت زندوں کو
تمہیں کیا ڈر جیئے جاو
اتباف ابرک
Leave a Commentدکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا
آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا
بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہوگا
ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا
آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا
یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا
شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا
نیلی دھندھلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا
میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا
شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا
پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا
میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا
ناصرؔ تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا
۔۔۔۔۔۔
ناصر کاظمی
کہنے کی بات کب ہے یہ کرنے کی بات ہے
دم عمر بھر کسی کا یہ بھرنے کی بات ہے
ہم نے کیا تھا عشق یہ جینے کے واسطے
کر کے خبر ہوئی کہ یہ مرنے کی بات ہے
ہے مختصر بہت یہ وفاؤں کی داستاں
پھولوں کے ڈالیوں سے بکھرنے کی بات ہے
کیسے ملائے بے وفا کوئی نظر یہاں
سودا تمام کر کے مکرنے کی بات ہے
کیجے محبتوں میں نہ شکوہ گلہ کوئی
یہ ہنستے ہنستے جاں سے گزرنے کی بات ہے
ڈرتے ہیں لوگ جانے کیوں اس موت سے بھلا
در اصل زندگی یہاں ڈرنے کی بات ہے
ابرک نہیں ہے آساں بھلانا ہمیں کہ یہ
اپنے ہی دل سے خود ہی اترنے کی بات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک
Leave a Commentغم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
سایہءوصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
وقت نے آرزو کی لو، دیر ہوئی، بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
زحمتضربتدگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
دائرہ وار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
دشت کی ساری رونقیں، خیر سے، گھر میں ہیں، تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجئے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
ہجر اک روگِ جاں مسلسل ہے
ہجر میں کب !!! سکون ملتا ہے ؟
عِشق دِلاں دی مرہم پوجا
محرم جان جہانے
عِشق دِلاں دَر طَبقّ تَنبُو
عرشاں عَرش ٹھِکانے
عِشق دِلاں کر عاشِق کردا
عِشق دِلاں دِیاں جانے
کِیہہ جانن ایہہ بھید دِلاں دے
دُنیا دار سیانے
شب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری
کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا
پیر نصیر الدین شاہ نصیر
Leave a Comment