!…دستِ ضروریات میں بٹتا چلا گی
!…میں بے پناہ شخص تھا، گھٹتا چلا گیا
!…پیچھے ہٹا میں راستہ دینے کے واسطے
!….پھر یوں ہوا کہ راہ سے ہٹتا چلا گیا
!…دستِ ضروریات میں بٹتا چلا گی
!…میں بے پناہ شخص تھا، گھٹتا چلا گیا
!…پیچھے ہٹا میں راستہ دینے کے واسطے
!….پھر یوں ہوا کہ راہ سے ہٹتا چلا گیا
!….اٹھاؤ کیمرا—-تصویر کھینچ لو میری کہ
!….غریب لوگ کہاں—-روز روز مسکراتے ہیں
خود فلک سے جو آدم کو ۔۔۔۔۔۔اُتارا ہو گا
کیونکر آدم پھر دنیا میں بے سہارا ہوگا
وہ جو دنیا سے نذر۔۔۔آگ کی ہو کے چلا
اس کا محشر میں کیا حشر دوبارہ ہوگا
اپنے نائب کو ذرا دیکھ !! ھے کہتا یارب
جلنے والے نے تو رب ہی کو پکارا ہوگا
مجھے تمہاری, تمہیں میری ہم نشینی کی
بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا
درد میں ڈوبی ہوئی میری جوانی سے نہ اُلجھ
تیری انکھ سے دریا بہہ نکلے گا میری کہانی سے نہ اُلجھ
ڈوب جائیگی میرے آ نسووں میں ساری زندگی ہی تیری
پامال ہیں خواب سارے میرے اشکوں کی روانی سے نہ اُلجھ
محفل میں میری آ
که طبیعت اداس ھے
رخ سے نقاب اٹھا
که طبیعت اداس ھے
کوئ راگ گنگنا
کوئ تان چھیڑ دے
مطرب رباب بجا
که طبیعت اداس ھے
ساقی میرے کرم کی
کر آج انتھا
جام صبر پلا کے
طبیعت اداس ھے
نالے تیرے هجر میں
کرتے ھیں کو بکو
دے زھر سی دوا
! …….. که طبیعت اداس ھے
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئی تو بہار ہیں
جو ٹھہر گئی تو قرار ہیں
کبھی آ گئی یونہی بے سبب
کبھی چھا گئی یوں ہی روزِ و شب
کبھی شور ہیں کبھی چپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
کسی یاد میں کسی رات کو
اک دبی ہوئی سی راکھ کو
کبھی یوں ہوا کہ بجھا دیا
کبھی خود سے خود کو جلا دیا
کبھی بوند بوند میں غم سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا
اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لب لعلیں کی
اک باغ سا ساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اس حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
منیر نیازی
Leave a Commentاک رات ستاروں سے کہا نجمِ سحر نے
آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار؟
کہنے لگا مریخ ادا فہم ہے تقدیر
ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار
زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں کیا؟
اس کرمک شب کور سے کیا ہم کو سروکار ؟
بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی
تم شب کو نمودار ہو ، وہ دن کو نمودار
واقف ہو اگر لذتِ بیدارئِ شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار
ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز
وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار
علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ
کتاب : بالِ جبریل
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر، جو نہیں کوئی تو ہم ہی سہی
سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری انجمن سے قریں سہی
تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
نصیرالدین نصیر
Leave a Comment