آئینے میں جو مسکا رہا ہے
میرے ہونٹوں کا دکھ دہرا رہا ہے
میری مرضی میں اس پر جو لٹاؤں
تمھاری جیب سے کیا جارہا ہے
تہذیب حافی
Leave a Commentآئینے میں جو مسکا رہا ہے
میرے ہونٹوں کا دکھ دہرا رہا ہے
میری مرضی میں اس پر جو لٹاؤں
تمھاری جیب سے کیا جارہا ہے
تہذیب حافی
Leave a Commentچلنے کا حوصلہ نہیں ، رُ کنا محال کردیا
عشق کے اس سفر نے تو ، مجھ کو نڈھال کردیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کردیا
اے میری گل زمیں تجھے، چاہ تھی ایک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامانِ یار منتظر
بانوِ شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کردیا
ممکناں فیصلوں میں ایک ہجر کا ایک فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے تو کمال کردیا
میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کردیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کردیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گِلا کیا
منسبِ دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کردیا
پروین شاکر
Leave a Commentسنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے
غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے
چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی
کوئی چارغ کی لو کو ذرا سے کم کر دے
کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی
زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے
بشیر بدر
Leave a Commentنہ سماعتوں میں تپش گُھلے نہ نظر کو وقفِ عذاب کر
جو سنائی دے اُسے چپ سِکھا جو دکھائی دے اُسے خواب کر
ابھی منتشر نہ ہو اجنبی، نہ وصال رُت کے کرم جَتا!
جو تری تلاش میں گُم ہوئے کبھی اُن دنوں کا حساب کر
مرے صبر پر کوئی اجر کیا مری دو پہر پہ یہ ابر کیوں؟
مجھے اوڑھنے دے اذیتیں مری عادتیں نہ خراب کر
کہیں آبلوں کے بھنور بجیں کہیں دھوپ روپ بدن سجیں
کبھی دل کو تِھل کا مزاج دے کبھی چشمِ تِر کو چناب کر
یہ ہجومِ شہرِ ستمگراں نہ سُنے گا تیری صدا کبھی،
مری حسرتوں کو سُخن سُنا مری خواہشوں سے خطاب کر
یہ جلوسِ فصلِ بہار ہے تہی دست، یار، سجا اِسے
کوئی اشک پھر سے شرر بنا کوئی زخم پھر سے گلاب کر
محسن نقوی
Leave a Commentرشتوں کی دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے
آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
بیٹھے ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پہ بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے
لفظوں کے ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے.
راحت اندوری
میرے رسول کہ نسبت تجھے اجالوں سے
میں ترا ذکر کروں صبح کے حوالوں سے
نہ میری نعت کی محتاج ذات ہے تری
نہ تری مدح ہے ممکن ترے خیالوں سے
تُو روشنی کا پیمبر ہے اور میری تاریخ
بھری پڑی ہے شبِ ظلم کی مثالوں سے
ترا پیام محبت تھا اور میرے یہاں
دل و دماغ ہیں پُر نفرتوں کے جالوں سے
یہ افتخار ہے ترا کہ میرے عرش مقام
تُو ہمکلام رہا ہے زمین والوں سے
مگر یہ مفتی یہ واعظ یہ محتسب یہ فقیہہ
جو معتبر ہیں فقط مصلحت کی چالوں سے
خدا کے نام کو بیچیں مگر خدا نہ کرے
اثر پذیر ہوں خلقِ خدا کے نالوں سے
ہے تُرش رو میری باتوں سے صاحبِ منبر
خطیبِ شہر ہے برہم میرے سوالوں سے
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کروں قتل کرنے والوں سے
میں بے بساط سا شاعر ہُوں پر کرم ترا
کہ باشرف ہُوں قبا و کلاہ والوں سے
احمد فراز
Leave a Commentنئی طرح سے نبھانے کی دِل نے ٹھانی ہے
وگرنہ اُس سے مَحبّت بہت پُرانی ہے
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سُنوں
کہ تُو نے بھی غمِ دنیا سے ہار مانی ہے
زمیں پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہلِ مَحبّت کا آسمانی ہے!!
ہمیں عزیز ہو کیونکر نہ شامِ غم کہ یہی
بچھڑنے والے ‘ تیری آخری نشانی ہے
اُتر پڑے ہو تو دریا سے پوچھنا کیسا؟
کہ ساحلوں سے اُدھر کتنا تیز پانی ہے
بہت دنوں میں تیری یاد اوڑھ کر اُتری
یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سُہانی ہے!
میں کتنی دیر اُسے سوچتا رہوں مُحسنؔ
کہ جیسے اُس کا بدن بھی کوئی کہانی ہے
تُـو نـہ مِـل پـائـی تـو کیـا غـم ہـے کـہ یـوں بھـی جـانـاں
ہـم تیـرے غـم کـے تھـے ، تیـرے تـو طلبـگار نـہ تھـے
تُجـھ سـے بچـھڑی تـو ہـوئی قـریبــــ اِتنـی ، ورنـہ
رابطـے تجـھ سـے کبھـی ایـسے اسـتوار نـہ تھـے
پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہت آپ کی وہ بلانا بدل گیا
آنکھ نے بُور اٹھایا ھے , درختوں کی طرح
یاد آتے ھیں اِسی رُت میں ، بُھلائے ھُوئے لوگ
”عباس تابش“
Leave a Comment