لہو روتے نہ اگر ہم دم ِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا جو کوئی اور تماشا کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اسے بھی نہ گوارا کرتے
جون ایلیاء
Leave a Commentلہو روتے نہ اگر ہم دم ِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا جو کوئی اور تماشا کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اسے بھی نہ گوارا کرتے
جون ایلیاء
Leave a Commentلوگوں کے لیے صاحبِ کردار بھی میں تھا
خوُد اپنی نگاہوں میں گُنہگار بھی میں تھا
کیوں اب مِرے مَنصب کی سلامی کو کھڑے ہو
یارو! کبھی رُسوا سرِ بازار بھی میں تھا
میں خوُد ہی چُھپا تھا کفِ قاتل کی شِکن میں
مقتوُل کی ٹوُٹی ہُوئی تلوار بھی میں تھا
میری ہی صدا لَوٹ کے آئی ہے مُجھی تک
شاید حدِ افلاک کے اُس پار بھی میں تھا
منزل پہ جو پہنچا ہُوں تو معلوم ہُوا ہے
خوُد اپنے لیے راہ کی دیوار بھی میں تھا
اب میرے تعارف سے گُریزاں ہے توُ، لیکن
کل تک تِری پہچان کا معیار بھی میں تھا
دیکھا تو میں اَفشا تھا ہر اِک ذہن پہ محسنؔ
سوچا تو پسِ پردہء اسرار بھی میں تھا
آسماں سے بھی ہم اتارے گئے
اور زمیں پر بھی کب سنوارے گئے
جیسے کٹتی ہیں ہجر کی راتیں
زیست ہم تجھ سے یوں گزارے گئے
بے رخی تک نہ بات پہنچی تھی
ہم عنایات میں ہی مارے گئے
جن کی خاطر پچھاڑا طوفاں کو
سب سے پہلے وہی کنارے گئے
ہم نے مڑ کر تمہی کو ڈھونڈا ہے
جب جہاں جس گھڑی پکارے گئے
نہ جگہ تھی ہماری جس دل میں
ہم اسی دل میں کیوں اتارے گئے
بولو وہ کیا کریں بصارت کا
جن کی آنکھوں کے سب نظارے گئے
جینا آسان ہو گیا تیرا
جب سے ابرک ترے سہارے گئے
اتباف ابرک
Leave a Commentیہ اور بات ہے تجھ سے گلا نہیں کرتے
جو زخم تو نے دیے ہیں بھرا نہیں کرتے
ہزار جال لیے گھومتی پھرے دنیا
ترے اسیر کسی کے ہوا نہیں کرتے
یہ آئنوں کی طرح دیکھ بھال چاہتے ہیں
کہ دل بھی ٹوٹیں تو پھر سے جڑا نہیں کرتے
وفا کی آنچ سخن کا تپاک دو ان کو
دلوں کے چاک رفو سے سلا نہیں کرتے
جہاں ہو پیار غلط فہمیاں بھی ہوتی ہیں
سو بات بات پہ یوں دل برا نہیں کرتے
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
جو ہم پہ گزری ہے جاناں وہ تم پہ بھی گزرے
جو دل بھی چاہے تو ایسی دعا نہیں کرتے
ہر اک دعا کے مقدر میں کب حضوری ہے
تمام غنچے تو امجدؔ کھلا نہیں کرتے
امجد اسلام امجدؔ
Leave a Commentمیں لفظ چُنوں __ دلکش چُنوں
پھر ان سے “” تیرا “” احساس بُنوں
تجھے لکھوں میں ” دھڑکن” اس دل کی
یا تجھ کو ابر کی __ رم جھم لکھوں
ستاروں کی عجب __ جھلمل کبھی
پلکوں کی تجھے “” شبنم “” لکھوں
کبھی کہہ دوں تجھے میں جاں اپنی
کبھی تجھ کو میں اپنا محرم لکھوں
کبھی لکھ دوں تجھے __ ہر درد اپنا
کبھی تجھ کو زخم کا ” مرہم” لکھوں
تو زیست کی ہے _ امید میری
میں تجھ کو خوشی کی” نوید “لکھوں
لفظوں پہ نگاہ جو ڈالوں __ کبھی
ہر لفظ کو” بیاں “سے عاجز لکھوں!!
میں تجھ کو تکوں _ تکتی جاؤں
میں تجھ کو میری “” تمہید “” لکھوں
تم گفت ہو میرے _ اس دل کی
میں “” تجھ “” کو فقط شنید لکھوں
زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا
کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا
ہم کو شکایتیں نہیں اتنا گلہ ہے بس
وہ چاہ آپ کی وہ بلانا بدل گیا
ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا
اتباف_ابرک
Leave a Commentوہ خیال تھا کوئی دھنک نما
یا کوئی عکس تھا میرے روبرو؟
مجھے ہر طرف سے تو لگا
وہ تو ہی تھا یا کوئی ہو بہو؟
بیان میں تھی وہ چاشنی
کہ مہک رہا تھا حرف حرف
جیسے خوسشبوؤں کی زبان میں
کوئی کر رہا ہو گفتگو
نہیں کچھ خبر کہ کس گھڑی
ترے راستوں کا سرا ملے
تیرے نقشِ پا کی تلاش میں
لگی تو ہے میری جستجو
بس دیکھنا ہے کس طرح
وہ جی رہی ہے میرے بغیر
یوں تو دل میں ہے وہ آج بھی
جسے ڈھونڈتا ہوں میں کو بہ کو
یہ یاد تھا کہ دعا کروں،
پر اٹھے رہے میرے ہاتھ یوں
جیسے خواہشوں کے ہجوم میں
کہیں کھو گئی تیری آرزو
اب کہاں جاؤں ؟ کہاں چکر لگاؤں؟ کیا کروں؟
!…میری وحشت کے مطابق_ کوئی ویرانہ نہیں
بےجا نَوازِشات کا بارِگراں نہیں
میں خُوش ہُوں اِس لِیے، کہ کوئی مہرباں نہیں
آغوشِ حادثات میں پائی ہے پروَرِش
جو برق پُھونک دے، وہ مِرا آشیاں نہیں
کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دُشوارِیوں پہ لوگ
ہُوں بے وَطن ضرُور، مگر بے نِشاں نہیں
گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصلِ گُل ہے یہ، دَورِ خِزاں نہیں
کُچھ برق سَوز تِنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جُھک جائیں گُل کے بار سے، وہ ڈالیاں نہیں
شکیبؔ جَلالی
Leave a Commentﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﺑﻴﺪﻟﯽ ، ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺑﺲ ﺑﮩﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ، ﺯﻧﺪﮔﯽ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺧﻮﺩ ﮐﻼﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﮮ ﺧﺎﻣﺸﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺩﺍﺩ ﺑﮯ ﺩﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﻧﮩﻴﮟ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ
ﺩﻭﺳﺘﻮ ! ﺷﮑﺮﻳﮧ ، ﺷﺎﻋﺮﯼ ! ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺍﺏ ﻳﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻧﮩﻴﮟ ﺁﺋﻴﮟ ﮔﮱ
ﺍﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﺮﯼ ﻭﺍﭘﺴﯽ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﻣﻴﮟ ﺧﺪﺍﺉ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﻴﺎ
ﺍﮮ ﺧﺪﺍ ﺩﺭﮔﺰﺭ ، ﺍﮮ ﺧﻮﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﻮﺉ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﻟﯽ
ﺭﺏّ _ ﺍﻣﺮﻭﺯ ﻭ ﻓﺮﺩﺍ ﻭ ﺩﯼ ، ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺩﮬﻮﭖ ﮈﮬﻞ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﯽ ، ﺳﺎﮰ ﺍﭨﮫ ﺑﮭﯽ ﭼﮑﮯ
ﺍﺏ ﻣﺮﮮ ﻳﺎﺭ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ
ﺍﮎ ﻧﻈﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻳﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻋﺎﺻﻢ ، ﭼﻠﻮ
ﺩﻭﺭ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺳﮩﯽ ، ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ
لیاقت علی عاصم
Leave a Comment