Skip to content

The Poet Place Posts

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں

جو مُجھ میں بولتا ہے میں نہیں ہوں
یہ جلوہ یار کا ہے میں نہیں ہوں

کہا منصورؒ نے سُولی پہ چڑھ کر
انالحق کی صدا ہے میں نہیں ہوں

عبا پہنے ہوئے مٹی کی مورت
کوئی بہروپیا ہے میں نہیں ہوں

میرے پردے میں آ کر اور کوئی
تماشہ کر رہا ہے میں نہیں ہوں

جو میں ہوتا خطا مُجھ سے بھی ہوتی
مُجھے ڈر کاہے کا ہے میں نہیں ہوں

جو بولے میخانے میں جا کے بیدمؔ
وہاں نقشہ ہے میرا میں نہیں ہوں

حضرت بیدم شاہ وارثیؒ

Leave a Comment

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​

انساں نہیں رہتا ہے تو ہوتا نہیں غم بھی​
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی​

بے جا نہیں کہہ دوں جو اسے لطف و کرم بھی​
قسمت میں مری اتنے کہاں تھے ترے غم بھی​

جس لغزش آدم سے خلافت ہے مزین​
اس جوش محبت کے خطاوار ہیں ہم بھی​

اہلوں کے مقامات پہ نا اہل ہیں فائز​
گھٹتا ہے اب اس شہر تمدن میں تو دم بھی​

آ جائے میسر جو کوئی ڈھب کا خریدار​
ہم لوگ تو بک جاتے ہیں بے دام و درم بھی​

یہ بات غلط شہر میں تم سے ہیں ہزاروں
اے جان طرب آج تو نایاب ہیں ہم بھی​

پہلے تو اعزا مرے رونے پہ ہنسے ہیں
دنیا پہ گزرتا ہے گراں اب ترا غم بھی​

انسان کی کیا بات ہے پتھر کی سلوں پر​
محفوظ ابھی تک ہیں کئی نقش قدم بھی​

لازم ہے کہ شایان تجلی ہوں نگاہیں​
ہونے کو تو یوں طالب دیدار ہیں ہم بھی​

اس شہر میں چلتی نہیں اخلاق کی راہیں​
اس دور میں ناپید ہیں ارباب ہمم بھی​

ڈر ہے کہیں اس کو بھی نہ اپنا لے زمانہ​
محدود ابھی تو ہے ہمیں تک ترا غم بھی​

حیرت ہے کہ رکتے ہیں جہاں زیست کے رہرو​
کہتے ہیں اسی قریہ ہستی کو عدم بھی​

شام آئی سمندر میں چلا ڈوبنے سورج​
اک روز ترے دل سے اتر جائیں گے ہم بھی​

دیوانے اگر جھانجھ میں کہہ دیں گے کوئی بات​
رہ جائیں گے منہ دیکھ کے قرطاس و قلم بھی​

تو نے کبھی اس راز کو سوچا ہے نہ سمجھا​
ہیں تیرے تعاقب میں ترے نقش قدم بھی​

ہر چند کہ شکوہ ہے غم ہجر کا لیکن​
جینے میں معاون ہے ترے ہجر کا غم بھی​

تاریک شبوں میں بھی کئی غار تھے روشن​
اے کاش وہ خوش کام سماں دیکھتے ہم بھی​

میں مسند و اورنگ سے غافل تو نہیں ہوں​
ہے میری نظر میں ترا معیار کرم بھی​

لبریز کیا ہے تو سنبھالو ہمیں ورنہ​
شیشے کی طرح گر کے بکھر جائیں گے ہم بھی​

تشخیص مرض چارہ گرو سوچ سمجھ کر​
ہوتا ہے مجھے درد کی تخفیف کا غم بھی​

تم لوگ زباں دے کے بھی پھر جاتے ہو اکثر​
ہم لوگ نبھا دیتے ہیں بے قول و قسم بھی​

کل رات سے سینہ میں وہی پہلی خلش ہے​
اب ہاتھ سے جاتا نظر آتا ہے بھرم بھی​

جو سینہ سپر عرصہ ہستی میں ہیں دانش
دشوار نہیں ان کے لیے راہ عدم بھی​

احسان دانش

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے

اس سے پہلے کہ یہ دنیا مجھے رسوا کر دے
تو مرے جسم مری روح کو اچھا کر دے

کس قدر ٹُوٹ رہی ہے مری وحدت مجھ میں
اے مرے وحدتوں والے مجھے یکجا کر دے

یہ جو حالت ہے مری میں نے بنائی ہے مگر
جیسا تو چاہتا ہے اب مجھے ویسا کر دے

میرے ہر فیصلے میں تیری رضا شامل ہو
جو ترا حکم ہو وہ میرا ارادہ کر دے

مجھ کو ہر سمت اندھیرا ہی نظر آتا ہے
کور بینی کو مری دیدۂ بینا کر دے

مجھ کو وہ علم سکھا جس سے اُجالے پھیلیں
مجھ کو وہ اسم پڑھا جو مجھے زندہ کر دے

میرے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال
میرے بچوں کو مہ و مہر و ستارا کر دے

ضائع ہونے سے بچا لے مرے معبود مجھے
یہ نہ ہو وقت مجھے کھیل تماشا کر دے

میں مسافر ہوں، سو رستے مجھے راس آتے ہیں
میری منزل کو مرے واسطے رستہ کر دے

میری آواز تری حمد سے لبریز رہے
بزمِ کونین میں جاری مرا نغمہ کر دے

(سلیم کوثر)

Leave a Comment

سفر منزل شب یاد نہیں

سفر منزل شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اولیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم دنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

Leave a Comment

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا

اب خوشی ہے نہ کوئی درد رلانے والا
ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے والا

ایک بے چہرہ سی امید ہے چہرہ چہرہ
جس طرف دیکھیے آنے کو ہے آنے والا

اس کو رخصت تو کیا تھا، مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا، گھر چھوڑ کے جانے والا

دور کے چاند کو ڈھونڈو نہ کسی آنچل میں
یہ اجالا نہیں آنگن میں سمانے والا

اک مسافر کے سفر جیسی ہے سب کی دنیا
کوئی جلدی میں، کوئی دیر سے جانے والا

ندا فاضلی

Leave a Comment

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری

کہاں ٹوٹی ہیں زنجیریں ہماری
کہاں بدلی ہیں تقدیریں ہماری

وطن تھا ذہن میں زندان نہیں تھا
چمن خوابوں کا یوں ویراں نہیں تھا

بہاروں نے دئے وہ داغ ہم کو
نظر آتا ہے مقتل باغ ہم کو

گھروں کو چھوڑ کر جب ہم چلے تھے
ہمارے دل میں کیا کیا ولولے تھے

یہ سوچا تھا ہمارا راج ہوگا
سر محنت کشاں پر تاج ہوگا

نہ لوٹے گا کوئی محنت کسی کی
ملے گی سب کو دولت زندگی کی

نہ چاٹیں گی ہمارا خوں مشینیں
بنیں گی رشک جنت یہ زمینیں

کوئی گوہر کوئی آدم نہ ہوگا
کسی کو رہزنوں کا غم نہ ہوگا

لٹی ہر گام پر امید اپنی
محرم بن گئی ہر عید اپنی

مسلط ہے سروں پر رات اب تک
وہی ہے صورت حال اب تک

حبیب جالبؔ

Leave a Comment

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے

یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے

اب مہ و سال کی مہلت نہیں ملنے والی
آ چکے اب تو شب و روز عذابوں والے

اب تو سب دشنہ و خنجر کی زباں بولتے ہیں
اب کہاں لوگ محبت کے نصابوں والے

جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے
اب گھروں تک چلے آئے وہ نقابوں والے

زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے

نہ مرے زخم کِھلے ہیں نہ ترا رنگِ حنا
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے

یوں تو لگتا ہے کہ قسمت کا سکندر ہے فرازؔ
مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے

Leave a Comment

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے

یہ جو مہر میں ہیں حرارتیں وہ ترا ظہورِ جلال ہے
یہ جو کہکشاں میں ہے روشنی وہ ترا غبارِ جمال ہے

وہاں فاصلوں کی زیادتی سے عنایتوں میں کمی نہیں
کوئی دور رہ کے اویسؔ ہے کوئی پاس رہ کے بلالؔ ہے

رواں ندیاں رمِ آہواں زمیں آسماں نہیں سب جہاں
تری رحمتوں کے طفیل ہیں کہ زوال جن کا محال ہے

تراروضہ ہے میرے سامنے مگر اپنی شکل دکھاؤں کیا
یہ میں کس مقام پہ آگیا کہ نہ ہجرہے نہ وصال ہے

جو عطا پہ روز خطا کرے جو خطا پہ روز عطاکرے
ترے پاس میری مثال ہے مرے پاس تیری مثال ہے

دلِ عاشقاں جو نڈھال ہیں ذرا آپ ان کو سنبھال لیں
یہ کسی کے بوتے کی شے نہیں کہ یہ آپ ہی کا تو مال ہے

وہ خدا کے نور کو دیکھ کر بھی زمین والوں میں آگئے
سرِ عرش جانا کمال تھا کہ وہاں سے آنا کمال ہے

ذرا سِدرہ والے سے پوچھنا کہ مقامِ مصطفوی ہے کیا
جہاں جبرئیل کے پر جلیں وہ مقام ایسی مثال ہے

رہِ حق میں سردیا جان دی مگر اپنا ہاتھ نہیں دیا
جو حسینؓ ابن علیؓ نے دی کیا جہاں میں ایسی مثال ہے

میری آرزوئیں بڑھی ہوئیں کہ مدینے میرا قیام ہو
میرے حوصلوں کا شمار کیا تیری رحمتوں سے سوال ہے

تیرے درتلک بھی میں آگیا ابھی زندہ ہوں کہ ہوں بے حیا
مگر اپنی جان کا کیا کروں میری جان مجھ پہ وبال ہے

میں حدوُدِ طبیہ تک آگیا تِیرے درتلک نہیں آؤنگا
تیرے سامنے میراحال ہے میرے سامنے یہ سوال ہے

تری یاد دل میں محیط ہے مجھے اور سمت پتہ نہیں
نہ توشرق ہے نہ توغرب ہے نہ جنوب ہے نہ شمال ہے

میں تمہارے نام کی نسبتوں کے سہارے دنیا میں جی گیا
مجھے اپنا دیدار کروا دو اب میری عاقبت کا سوال ہے

ارے زار اشرفِؔ ناتواں کہاں نعت تیرا بیاں کہاں
ترا حق تھا تو نے اٹھالیا یہ رضاؔ کے توشے کا مال ہے

Leave a Comment

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی

دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکرِ وطن اپنے روبرو ہی سہی

Leave a Comment
%d bloggers like this: