Skip to content

The Poet Place Posts

‏قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ

‏قہوہ خانے میں دھواں بن کے سمائے ہوئے لوگ
جانے کس دھن میں سلگتے ہیں بجھائے ہوئے لوگ

تُو بھی چاہے تو نہ چھوڑیں گے حکومت دل کی
ہم ہیں مسند پہ ترے غم کو بٹھائے ہوئے لوگ

اپنا مقسوم ہے گلیوں کی ہوا ہو جانا
یار، ہم ہیں کسی محفل سےاٹھائے ہوئے لوگ

‏نام تو نام مجھے شکل بھی اب یاد نہیں
ہائے وہ لوگ، وہ اعصاب پہ چھائے ہوئے لوگ

آنکھ نے بور اٹھایا ہے درختوں کی طرح
یاد آتے ہیں اِسی رت میں بُھلائے ہوئے لوگ

حاکمِ شہر کو معلوم ہوا ہے تابش
جمع ہوتے ہیں کہیں چند ستائے ہوئے لوگ

عباس تابش

Leave a Comment

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں تیرے ساتھ ہوں جب تک مرے جیسا نہ ملے

کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جاۓ
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے

مجھ کو اک رنگ عطا کر تا کہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھے میرا چہرا نہ ملے

لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ بُرے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے نہ کبھی دیکھا نہ ملے

بس یہی کہہ کہ اسے ہم نے خدا کو سونپا
اتفاقاََ کہیں مل جاۓ بھی تو روتا نہ ملے

تم لوگ دعا کرتے رہو کہ میرا سفر اچھا رہے
کوٸی مل جاۓ مگر عقل کا اندھا نہ ملے

مجھ کو دیکھا تو اچانک لپٹ کہ یوں روۓ
جیسے ماں کو کہیں سے گمشدہ بچہ نہ ملے

بددعا ہے کہ وہاں آٸیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو کہیں بیٹھا نہ ملے

Leave a Comment

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے

وحشت میں نکل آیا ہوں ادراک سے آگے
اب ڈھونڈ مُجھے مجمعِ عُشاق سے آگے

اک سُرخ سمندر میں ترا ذکر بہت ہے
اے شخص گُزر ! دیدۂ نمناک سے آگے

اُس پار سے آتا کوئی دیکھوں تو یہ پُوچھوں
افلاک سے پیچھے ہوں کہ افلاک سے آگے

دم توڑ نہ دے اب کہیں خواہش کی ہوا بھی
یہ خاک تو اُڑتی نہیں خاشاک سے آگے

جو نقش اُبھارے تھے مٹانے بھی ہیں اُسنے
در پیش پھر اک چاک ہےاس چاک سے آگے

ہم زاد کی صُورت ہے مرے یار کی صُورت
مَیں کیسے نکل سکتا ہوں چالاک سے آگ

Leave a Comment

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں

خرد گزیدہ جنوں کا شکار یعنی میں
ملا تھا غم کو بھی اک غم گسار یعنی میں

محبتیں نہ لُٹاتا تو اور کیا کرتا
وفورِ شوق کا آئینہ دار یعنی میں

عظیم چاک پہ تھی انکسار کی مٹّی
بنا تھا کوزہ کوئی شاہکار یعنی میں

چمک رہا تھا موافق تری توجّہ کے
خلوص و مہر و وفا کا دیار یعنی میں

مرے خدا نہیں تھمتا یہ ظلم کا طوفان
اور اس کے سامنے مشتِ غبار یعنی میں

ہوئی تھی جب بھی ترے التفات کی بارش
لہک اُٹھا تھا ترا لالہ زار یعنی میں

زہے نصیب! حوادث میں بھی نہیں ٹوٹا
ترا غرور، ترا افتخار یعنی میں

ہے مستقل مرے سینے میں درد یعنی توٗ
نہ رہ سکا ترے دل میں قرار یعنی میں

ہر ایک بات مری کر رہا تھا رد راغبؔ
مرے سخن پہ تھا کوئی سوار یعنی میں

افتخار راغبؔ

Leave a Comment

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکیر مٹا دیجئے مجھے

ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے

میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دکھا دیجئے مجھے

میں کیا ہوں کس جگہ ہوں مجھے کچھ خبر نہیں
ہیں آپ کتنی دور صدا دیجئے مجھے

کی میں نے اپنے زخم کی تشہیر جا بجا
میں مانتا ہوں جرم سزا دیجئے مجھے

قائم تو ہو سکے کوئی رشتہ گہر کے ساتھ
گہرے سمندروں میں بہا دیجئے مجھے

شب بھر کرن کرن کو ترسنے سے فائدہ
ہے تیرگی تو آگ لگا دیجئے مجھے

جلتے دنوں میں خود پسِ دیوار بیٹھ کر
سائے کی جستجو میں لگا دیجئے مجھے

شہزادؔ یوں تو شعلۂ جاں سرد ہو چکا
لیکن سُلگ اٹھیں تو ہوا دیجئے مجھے

شہزاد احمد

Leave a Comment

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے

کوئی بہلائے باتوں سے مگر یہ ڈرتا رہتا ہے
دلِ برباد کی ہائے پریشانی نہیں جاتی

کسی بھی آشنا دستک پہ اب کھلتا نہیں ہے یہ
ترے جانے پہ دروازے کی حیرانی نہیں جاتی

قفس میں قید ہوتے ہیں کئی ارماں اڑانوں کے
رہا کر کے پرندے بھی پشیمانی نہیں جاتی

بدل جاتے ہیں سب چہرے سبھی اپنے پرایوں کے
حقیقی شکل بھی اب ہم سے پہچانی نہیں جاتی

بہت مجبور کرتا ہے ہمیں تیرے حوالے سے
کہ اب کچھ دل کے آگے عقل کی مانی نہیں جاتی

کسی آہٹ سے میرے خواب اور نیندیں گریزاں ہیں
تبھی تو میری آنکھوں کی یہ ویرانی نہیں جاتی

Leave a Comment

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو

ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو

وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو

چٹخ اٹھا ہو سلگتی چٹان کی صورت
پکار اب تو مرے دیر آشنا مجھ کو

تجھے تراش کے میں سخت منفعل ہوں کہ لوگ
تجھے صنم تو سمجھنے لگے خدا مجھ کو

یہ اور بات کہ اکثر دمک اٹھا چہرہ
کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو

یہ قربتیں ہی تو وجہ فراق ٹھہری ہیں
بہت عزیز ہیں یاران بے وفا مجھ کو

ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو

اسے فرازؔ اگر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا
تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو

احمد فراز

Leave a Comment

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی

جب ترا حکم ملا ترک محبت کر دی
دل مگر اس پہ وہ دھڑکا کہ قیامت کر دی

تجھ سے کس طرح میں اظہار تمنا کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی

میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی

تجھ کو پوجا ہے کہ اصنام پرستی کی ہے
میں نے وحدت کے مفاہیم کی کثرت کر دی

مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی

پوچھ بیٹھا ہوں میں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تری صورت کر دی

کیا ترا جسم ترے حسن کی حدت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

احمد ندیم قاسمی

Leave a Comment

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو

اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کر دو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کر دو

نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو مجھے پاگل کر دو

تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کر دو

اس کے سائے میں مرے خواب دہک اٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو

دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو مری روح میں جل تھل کر دو

جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے جل تھل کر دو

تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجھل کر دو

مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کر دو

اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کر دو

مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کر دو

Leave a Comment
%d bloggers like this: